بارکھان سے آرہی ہے آواز “سردار مردہ باد”
محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
کنفیوشس سے نے کہا کہ سچ کی گواہی کی طرف بس ایک قسم کے لوگ ہوتے ہیں، جو سچ کے ساتھ ہوتے ہیں، دوسرے وہ لوگ جو اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے ہو تے ہیں، دیکھ چکے ہو تے ہیں، کانوں سے سن چکے ہوتے ہیں، پر وہ سچ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ اور تیسرے وہ لوگ جو سچ کے ساتھ نہیں ہو تے، پر ان لوگوں کے ساتھ بھی نہیں ہوتے جن لوگوں کے ہاتھوں سچ قتل ہوتا ہے، تو یقین جانو وہ تیسرے لوگ بھی جھوٹ کے ساتھ ہوتے ہیں جو سچ کو قتل کرتے ہیں اور دھندناتے پھرتے ہیں۔
تو ہم کس کے ساتھ ہیں؟
بارکھان میں ناحق قتل ہوجانے والے انور کھیتران کے ساتھ؟
اس سردار کے ساتھ جس کے پاس بہت سی بھونکتی بندوقیں، کتے اور کمدار ہیں؟
یا کسی کے ساتھ بھی نہیں؟
اگر کسی کے ساتھ بھی نہیں تو ہمیں کنفیوشس کہہ رہا ہے کہ ہم یقیناً اس سردار کے ساتھ ہیں جس سردار سے ایک سچ کا داعی برداشت نہیں ہوا، جس سردار سے الفاظ کا بوجھ نہیں اُٹھایا گیا، اس سردار کے ساتھ جو نام نہاد ہے، جو ریاست کے اندر ریاست کا مالک ہے۔ اس سردار کے ساتھ جو جاہل ہے، جس سے سچ برداشت نہیں ہوتا، اس سردار کے ساتھ جو ہم سے ووٹ بھی لے لیتا ہے اور جو ہمیں عزت بھی نہیں دیتا، اس سردار کے ساتھ جس سردار کے ہاتھوں نا ہماری جانیں محفوظ ہیں اور نہ ہی عزتیں۔
اس سردار کے ساتھ جو قتل بھی کرتا ہے کرامات کی طرح
اور شوشہ بھی نہیں ہوتا!
اگر ہم سچ کے ساتھ نہیں ہیں، اگر ہم کسی کے بھی ساتھ نہیں ہیں اور ہم بس اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بارکھان میں کیا ہو رہا ہے تو ہم سردار کے ساتھ ہیں۔
ہمیں اس سردار کے ساتھ نہیں ہونا جو ایک ایسے نظام کا داعی ہے جس نظام میں سچ، انصاف، خوبصورتی اور عورت قیدی ہیں۔ اگر اس نظام میں، سچ، انصاف، خوبصورتی اور عورت قیدی نہیں ہوتے تو سادھو جیسا انور کھیتران کیوں قتل ہوتا؟ اس نظام میں تو پرندے اور سانسیں بھی قیدی ہیں۔ نہ تو آزاد انسان کھل کر سانس لے سکتا ہے اور نہ تو پرندے کھل کر اُڑان بھر سکتے ہیں۔ ایسے ہی بے جان نظام کی نشاندہی کیا کرتا تھا بدھ جیسا انور جان۔
انور جان کے پاس کیا تھا؟ سوائے کچھ کورے کاغذوں اور کچھ قلموں کے، اس کے پاس بہت سی بھوکتی بندوقیں نہیں تھیں، اس کے پاس بہت سے کتے نہیں تھے، اس کے پاس وہ کمدار بھی نہیں تھے جو چلتے پھرتے خبریال ہوتے ہیں اور ان بدمعاش سرادروں کو غریب ہاریوں کی تیار فصلیں اور جوان لڑکیوں کا پتہ بتاتے رہتے ہیں اور سردار رات کی تاریکی میں ان فصلوں پر ٹریکٹر چلا دیتے ہیں، آگ لگا دیتے ہیں اور تنگ کپڑوں میں جوان ہوتی ہاریوں کی لڑکیوں کو اپنے محلوں میں لاکر انہیں وحشت کی نظر کرتے ہیں، پھر ان لڑکیوں کا وہ حشر ہوتا ہے جو کچھ دن پہلے اسی سوشل میڈیا کی اسکرین پہ پوری دنیا دیکھ چکی ہے کہ ایک ہاری کی لڑکی کو وڈیرے کی وحشت کی نظر کیا گیا اور گدھا گاڑی میں اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور وہ راستے میں ہی گذر گئی، یہ بھی معلوم نہ ہوپایا ہے اسے کون سے کتے، کمدار لے گئے تھے۔
ایسی ہی باتوں کو لکھا کرتاتھا انور جان اور وہ جانتا بھی تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا، پر اگر سب ڈر کر گھر بیٹھ جائیں تو پھر ان محلات میں دراڑیں کون ڈالے گا؟ ایسی ہی بات کہیں تھی سندھ کے فقیر شاعر استاد بخا ری نے کہ
،،اگر میں بھی ڈر کر سو جاؤں
تو میرے گھر کے آکاش کے تاروں کو کون بھلائے گا؟!،،
انور جان سب جانتا تھا، اگر وہ بھی ڈر جاتا تو بارکھان ایسا ہی رہتا، جیسا سردار، جاگیردار اور بھوتار چاہتے ہیں
خاموش خاموش سا!
ڈرا ڈرا سا!
تاریکی میں ڈوبا ہوا!
پر انور جان اپنے لہو سے بارکھان میں دیا جلاگیا ہے اور وہ دیا ہم سے پوچھ رہا ہے کہ تم کس کے ساتھ ہو؟
سردار کے ساتھ؟
بارکھان کی مظلوم عوام کے ساتھ؟
یا کسی کے ساتھ نہیں؟
اگر کسی کے ساتھ نہیں تو یقیناً
ہم اس سردار کے ساتھ ہونگے، جس کے کمداروں نے بھونکتی بندوقوں سے الفاظ کے ہاری کو قتل کیا ہے
انورجان کھیتران الفاظ کا ہاری تھا، اس کے پاس الفاظ کے سوا کیا تھے؟
ہمیں بارکھان کو بتانا ہے کہ ہم بارکھان کے ساتھ ہیں
ہم سچ کے ساتھ ہیں
ہم ان الفاظ کے ساتھ ہیں جن الفاظ کی وجہ سے انور جان ناحق قتل ہوا ہے
اور وہ ہم ہی ہونگے جو مقتل گاہ سے انور جان کا علم لے کے پھر سے چلیں گے
اور اس قاتل سردار کو بتائیں گے کہ
عشاق نہیں رُکتے
بس ان عشاق کے نام بدلتے ہیں
وہ عاشق
میں بھی ہوں!
ان عشاق میں
تم بھی ہو!
اس سردار کو یہ بھی باور کرائیں گے کہ اس کی بھونکتی بندوق کسی انسان کی جان تو لے سکتی ہے، پر وہ بندوق الفاظ کو قتل کیسے کریگی، ٹھیک ہے انور جان قتل ہوا اس کا نازک نحیف جسم دفن ہوا پر اس کے قتل پر یہ جو الفاظ وجود پا گئے ہیں، ان الفاظ کو کون اور کیسے قتل کریگا؟
،،بارکھان سے آ رہی ہے آواز
،،سردار مردہ باد
سردار مردہ باد!،،
ان الفاظ کو بارکھان کا سردار کیا وہ بھی ختم نہیں کرسکتے جو ایسے سرداروں کے گاڈ فادر ہوتے ہیں اور ان سرداروں کو ایسے پالتے رہتے ہیں جیسے شہروں میں امیر لوگ کتے پالتے ہیں۔
یہ بارکھان کے سردار
ریاست کے کتے ہیں
جسے چاہیں ڈسیں اور جسے چاہیں چھوڑ دیں
پر بارکھان اپنے مظلوم بیٹے کا قتل معاف نہیں کریگا، بارکھان جاگ چکا ہے اور اس سرداروں کو ان الفاظ میں للکار رہا ہے کہ
،،قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے عَلَم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے!،،
کنفیوشس کے یہ الفاظ اہل علم،عقل و دانش کے لیے تو ہو سکتے ہیں کہ
،،سچ کی گواہی کی طرف بس ایک قسم کے لوگ ہو تے ہیں جو سچ کے ساتھ ہو تے ہیں
دوسرے وہ لوگ جو اپنی آنکھوں سے سچ کچھ دیکھ رہے ہو تے ہیں، دیکھ چکے ہو تے ہیں کانوں سے سن چکے ہو تے ہیں، پر وہ سچ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے اور تیسرے وہ لوگ جو سچ کے ساتھ نہیں ہو تے، پر ان لوگوں کے ساتھ بھی نہیں ہو تے جن لوگوں کے ہاتھوں سچ قتل ہوتا ہے، تو یقین جانو وہ تیسرے لوگ بھی جھوٹ کے ساتھ ہو تے ہیں جو سچ کو قتل کرتے ہیں اور دندناتے پھرتے ہیں،!،،
پر یہ الفاظ بارکھان کے لیے ہر گز نہیں
بارکھان صرف اور صرف اپنے انور کھیتران کے ساتھ ہے
جو سچ تھا
اور سچ کا داعی تھا
جس کی اداس قبر دیکھ کر بارکھان ایاز کے یہ الفاظ دھراتا ہے کہ
،،سچ وڈو ڈوھا ری آھے
روز ازل کھان ماریو ویو آ،،
اور اسی سچ کی قبر نے یہ دو نئے الفاظ جنے ہیں
ماں مریم کی طرح
بارکھان سے آرہی ہے آواز
،،سردار مردہ باد!،،
دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔