“Oderint, dum metuant” – برزکوہی

872

“Oderint, dum metuant”

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

رومن شہنشاہ کلیگولا نے اپنے دور اقتدار میں ظلم و ستم کا ایسا بازار گرم کیا ہوا تھا کہ اسے خدا کی طرف سے نازل ایک قہر تصور کیا جانے لگا تھا، اس نے ساتھ ساتھ عیش و عشرت کی ساری حدیں پار کردیں تھی، حتیٰ کہ اس نے اپنے پسندیدہ گھوڑے کو روم کا سینیٹر نامزد کردیا، جس کے بعد اسکا گھوڑا محل میں رہتا تھا۔ اسکی عیاشیوں سے خزانہ خالی ہوتا جارہا تھا۔ سلطنت روم کا یہ حالت دیکھ کر اسکے کچھ خیرخواہ اسکے پاس آئے اور اس سے التجاء کی کہ خدارا اپنا طریق بدلیں، لوگوں کے دل آپکے خلاف نفرت سے بھر چکے ہیں۔ انکی بات سن کر جواب میں کلیگولا نے مشہور شاعر اکیوس کے کسی شعر کا ایک مصرعہ سنایا، جس کے بعد انکا یہ جواب تاریخ کے پنوں پر ہمیشہ کیلئے نقش ہوگیا
“Oderint, dum metuant
کرنے دو انہیں نفرت، جب تک انکے دلوں میں خوف زندہ ہے”

کلیگولا کو پتہ تھا کہ جب تک لوگوں کے دلوں میں اسکا بٹھایا ہوا خوف زندہ ہے، تب تک وہ چاہے جتنا بھی نفرت کریں، وہ اسکا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ نفرت ضرور حرکت ہے لیکن خوف سے بڑی بیڑی، خوف سے بڑی فوج اور کوئی نہیں۔

آج میں اپنے سرزمین میں نفرت دیکھ رہا ہوں، برمش ایک موقع تھا، جس کے ذریعے لوگ اپنے اس چھپے نفرت کا اظہار کررہے ہیں، ان چور اچکوں سے نفرت جنہیں ڈیتھ اسکواڈ کہہ کر پکارا جاتا ہے، ان نام نہاد سیاست دانوں سے نفرت جو قوم کو ایک غلام گردش میں جکڑ کر ان ڈاکوؤں کی سرپرستی کررہے ہیں، قابض ریاست سے نفرت جو ان ڈیتھ اسکواڈوں کا خالق ہے، ریاست کے نوآبادیاتی پالیسیوں سے نفرت، قبضے اور غلامی سے نفرت، روز اپنوں کو قتل اور لاپتہ ہوتے دیکھ کر اپنی بے بسی سے نفرت، کمزور حالت میں اپنے عزت کو فوجی بوٹوں تلے روندتے دیکھنے سے نفرت۔ یہ نفرت اپنا اظہار پارہا ہے۔

لیکن دوسری طرف خوف بھی اسی طرح اپنا اظہار کررہا ہے، خوف کہیں منہ چھپائے اور کہیں دانشورانہ موشگافیوں اور کہیں ہمددری بھرے تجاویز میں اظہار پارہا ہے۔ جی جناب! سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان ڈیتھ اسکواڈوں کی وجہ تخلیق کیا ہے اور خالق کون ہے، مظاہرے و احتجاج ضرور کرو، خوب غصہ اتارو لیکن خیال کرنا حقیقی خالقوں کا نام تک منہ سے نا نکل پائے۔ جی دوستوں! سب جانتے ہیں کہ قبضہ و ڈیتھ اسکواڈ اور تمہارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا اٹوٹ رشتہ ہے، خوب غصہ کرو لیکن خیال رکھنا دشمن کو تمہارے وفاداری پر تھوڑا بھی شبہ نا ہوپائے۔ وہ فلانہ جلسہ و احتجاج یا ریلی بہت اچھا تھا، لیکن کچھ منحوس نوجوان جذباتی ہوگئے اور سچ بول دیا اور اصل قاتل و حقیقی علت قتل کو ظاہر کردیا، اب تو مشکل ہوجائیگی کہ دوبارہ مائی باپ ہمیں سڑکوں پر نعرہ مستانہ بلند کرنے چھوڑے۔ اسی طرح خوف ہزاروں تاویلیوں و دلیلیوں کے ذریعے اپنا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے، اور کوشش کرتا ہے کہ دل سے دوسرے دل میں کرونا کے وبا سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلے۔

ایک دوست دریافت کرتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ آج بلوچستان میں جگہ جگہ مظاہرے ہورہے ہیں اور ریاست کچھ نہیں بول رہا؟ کیونکہ آج جی ایچ کیو میں بیٹھے کلیگولا بھی اکیوس کا جملہ دہرارہے ہیں، اور اسی کو بلوچستان کے بارے میں اپنا پالیسی بنائے ہوئے ہیں۔
Oderint, dum metuant کرنے دو انہیں نفرت، جب تک انکے دلوں میں خوف زندہ ہے۔
جتنا لوگ خوفزدہ ہیں، جتنا ڈر ڈر کر لوگ الفاظ منہ سے نکال رہے ہیں، اور بادل نخواستہ کسی کے منہ سے ایک آدھ لفظ فرط جذبات میں سخت نکل گیا، اسے یہ خود ہی کتنا نوچ کھاتے ہیں، یہ سارا خوف دیکھ کر، ریاست کو ڈر نہیں کہ لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں بلکہ وہ مزے لے رہا ہے کہ وہ کامیاب ہوا، اب اسے فوج اتارنے کی ضرورت نہیں، اسکی غیرموجودگی میں ہی اسکا پھیلایا خوف ایک فوج کا کام کررہا ہے، اور کہیں سے کسی نے سراٹھایا، تو اسے بھی یہ خود ہی نیچے کرالیں گے، کیونکہ انہیں سیاسی میدان نہیں درحقیقت اسٹیج چاہیئے جہاں دمہ چوکڑی ہوسکے۔

آج ایسی تاریخی عمل سے کٹے ہوئے، غیر سیاسی مزاحقہ خیز باتیں سیاسی کارکن و دانشور ہونے کے دعویداروں سے سننے کو ملتی ہیں کہ سر پیٹنے کو دل کرتا ہے، ہم بدبخت بلوچ گرامچی و فینن جیسوں کی رہنمائی سے تو رہے لیکن کم از ہمارے قلم آزما اگر اتنا تک جرئت نہیں رکھ سکتے کہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہیں تو بہت تھی، یہ بھی نہیں تو کم از کم سرمئی رنگ کا پرچار و دفاع بھی نہیں کریں غنیمت ہوگی اور اتنا ہی دکھ مجھے نسل نو کی سیاسی سمجھ بوجھ سے ہوتی ہے کیونکہ جب یہ تحریک شروع کی گئی تھی تو موجودہ نسل سے بہت امید رکھی جارہی تھیں، یہ سمجھا جارہا تھا کہ یہ نسل ایک جاری جنگ، ایک مزاحمت، ایک تحریک کے کوکھ سے پیدا ہوئی ہے، تو اسکی سیاسی سمجھ بوجھ بلوچوں کی پرانی تمام نسلوں سے بہتر ہوگی۔

یعنی ذرا ان دلائل پر غور کریں کہ 2010 سے پہلے کے سیاسی کارکن جذباتی اور نا سمجھ تھے، انکی نا سمجھی اور جذباتی سیاسی تحرک کی وجہ سے اب گراونڈ پر سیاست کرنے کی ریاست اجازت نہیں دیتا، اور سیاست ختم ہوچکی ہے۔ ذرا سیاسی عمل، سیاسی حالات و اسکے تقاضوں پر سوچیں، قابض ریاست کے غیر جمہوری، آمرانہ و غیر مہذبانہ طریق کو تاریخی تسلسل میں دیکھیں۔ اگر آپ کوئی بھی معنی خیز سیاست کریں گے، آپکے سیاست کا محور حقیقی مسئلے ہونگے، آپ مسئلے کے جڑ پر انگلی اٹھائینگے، آپ فوجی چھاونی سے منظوری لیئے بغیر، یا کسی کرنل سے آشیرباد لیئے بغیر تحریک چلائیں گے، آپ کا کوئی بھی تحریک اس استحصالی نظام، اس اسٹیٹسکو، اس قبضے، اس جبر کے بنیادوں کو ذرا بھی نقصان پہنچائے گا تو یہ ریاست اور اسکی فوج اپنی پوری طاقت آپکو سبوتاژ کرنے پر لگائے گی۔ اگر آپکی سیاست بامعنی ہے تو یہ آپکو سڑکوں پر نہیں چھوڑے گی، یہ آپکو تعلیمی اداروں میں نہیں چھوڑیگی، یہ آپکو اخباروں میں نہیں چھوڑیگی۔ لیکن اگر آپکے سرگرمیوں سے اس استحصالی نظام کو کوئی خطرہ نہیں تو آپ کچھ بھی کریں آپکو بھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا، لیکن پھر کیا واقعی وہ سیاست ہوگا؟ یہ سارا بحث و زور ایک ایسے سیاسی ماحول کو پیدا کرنے ہے، جو حقیقی معنوں میں سیاست ہے ہی نہیں، جس عمل سے کاسترو یا منڈیلا پیدا نہیں ہوتے بلکہ علی مدد جتک نکلتے ہیں۔ یہ اپنے آپکو اور لوگوں کو بیوقوف بنائے رکھنے، اور سرگرمی کے سراب میں رہنے کا اسی پاکستانی پارلیمانی کرپٹ سیاست کا نیا شکل ہوگا۔

بلوچستان میں طویل عرصے تک سنڈیمنی سرداروں کرپٹ پارلیمانی سیاست دانوں کا سیاسی سرکس لگا ہوا تھا تو گراونڈ سیاست کیلئے سازگار تھا، کیونکہ آپکے نعرے، باتیں، عمل اور دعوے جابر، قابض، استحصالی سامراج کے مفادات کیلئے سازگار تھے، تب بی ایس او کے ایک معمولی سیشن تک میں ہزاروں لوگ جمع کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن جب نوجوانوں نے آستین پر لگے خون کے دھبوں کی جانب اشارہ کرنا شروع کیا، جب حقیقی مسئلوں پر حقیقی ایکٹویزم شروع ہوئی تو پھر وہی گراونڈ جہنم بنادی گئی۔ جس کے بعد یہ حقیقت بخوبی سمجھ لیا گیا کہ یہاں اگر آپ حقیقی و ایماندارنہ سیاست کرنا چاہتے ہیں، اگر حقیقی مسئلوں پر انقلابی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو پھر یہ ناممکن ہے کہ آپ امن و عدم تشدد کے دائرے میں اس وحشی ریاست کے ساتھ بات کرکے، احتجاج کرکے لائیں۔ یہ ممکن نہیں کہ آپکے ہاتھ میں بینر ہو اور وہ گولیاں برسا رہا ہو، آپ ایک طرف تقریر کررہے ہیں تو دوسری طرف سے آپکے درجنوں کامریڈ غائب کرکے اذیت خانوں میں ہمیشہ کیلئے گمشدہ کیئے جارہے ہیں۔ اسی معروضی سچائی کو سمجھ کر ہی نوجوانوں نے اپنے سیاست کا طریقہ بدل کر بندوق سے سیاست شروع کی۔

آج مسلح جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں کو کچھ لوگ ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے یہ وحشی، لڑاکو اور ماں کے پیٹ سے پیدا جنگجو ہیں، جنہیں لڑنے کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ایسا نہیں ہے، مسلح جدوجہد کرنے والے مخلص ترین اور حالات کا بہترین ادراک رکھنے والے سیاسی کارکن ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو اس استحصالی نظام کو، اس نوآبادیاتی نظام کو، ظلم و زیادتی کو آنکھیں بند کرکے برداشت نہیں کرسکتے، جو یہ جانتے ہیں کہ کسی نا کسی کو ان ظلم کے ضابطوں کو توڑنا ہوگا، کہیں سے شروعات ہونی ہوگی، کہیں سے تبدیلی آنی ہے، جو جانتے ہیں، جنہوں نے تجربے سے سیکھ لیا ہے کہ یہ ریاست کوئی بھی معنی خیز پر امن سیاست ہونے نہیں دیگا، اس لیئے جعلی دلائل و دانشورانہ موشگافیوں اور سوشل میڈیا پر مذمت و افسوس اور ہیش ٹیگی تحریکوں سے کچھ تبدیل نہیں ہوگا، اسلیئے انہوں نے بندوق تھام لیا ہے۔ انہوں نے بندوق اس لیئے نہیں اٹھایا کہ انہیں شوق ہے، یا وہ مہم جو ہیں بلکہ اسلیئے کیونکہ انہیں اٹھانا پڑا ہے۔

جب ہم مسلح جدوجہد یا قومی جنگ کی بات یا دفاع کرتے ہیں، تو ایسا تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ ہم ہلاکو و ہٹلر کے اولاد ہیں۔ ارے بھائی! ایسا کچھ نہیں اللہ آپ لوگوں کا بھلا کرے اور آپ لوگوں کو ہمت و ایمان عطاء فرمائے، جنگ ایک شوق نہیں، جنگ ایک کھیل نہیں، جنگ ایک شوشہ نہیں، جو ہمارے نئے نئے لبرل جنگ کو مہم جوئی کا نام دیکر آزادی پسندوں کے خلاف پروپگینڈہ کرتے نظر آتے ہیں، وہ ذرا جنگ کا حصہ بنکر دیکھیں تو انکو پتہ چلے گا کہ جنگ میں کوئی مہم جوئی نہیں، جنگ درد ہے، تباہی ہے، بربادی ہے، اپنے یاروں کی لاشوں کو اٹھانے کا کلیجہ چیر دینے والا تجربہ ہے۔ لیکن جنگ مجبوری ہے، یہ جنگ جنگ کے خلاف ہے، یہ جنگ امن کیلئے ہے، برابری کیلئے ہے، آزادی کیلئے ہے۔ انسان کو انسانیت کے معراج تک لانے کیلئے ہے۔ ورنہ کس کو برا تھا اپنے خاندان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، عیدیں منانا۔

آج بلوچ قوم جو بندوبست پاکستان کے خلاف جنگ لڑرہا ہے، یہ بلوچ نہ پاگل ہیں، نہ بلوچ گمراہ ہیں، نہ بلوچ جاہل ہے، نہ بلوچ فاشسٹ ہے اور نہ ہی بلوچ شاونسٹ ہے اور نہ ہی رجعتی و جنونی ہے۔ اگر بلوچ جو لڑ رہے ہیں، تو ان بدبختوں کو بس ان کا اعلیٰ سیاسی شعور، اعلیٰ قومی احساس و غیرت مندی آج مجبور کررہا ہے۔ ان کا گناہ و قصور یہی ہے کہ ان سے چپ رہ کر ظلم سہا نہیں جاتا اور بقولِ شاعر یہ کوے کو بلبل کہہ کر پکار نہیں سکتے۔

یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ وہی سیاسی عمل یا مزاحمتی عمل جب ریاستی جبر کے بغیر روبہ عمل تھی تو بہت سے اکابرین اسے انقلاب کے دستک کے معنوں میں تعبیر کرتے تھے، بہت سے شاعر، قلمکار، دانشور، سیاسی کارکن و صحافی جو پہلے بدعنوان ہرے پاکستانیت میں رنگے تھے، وہ بھی بدل گئے اور ہرا رنگ اتار کر سرخ چوغہ کندھوں پر سجادیا۔ جب سختیاں شروع ہوئیں تو پھر آج کل نظر آرہا ہے کہ لائبریریوں میں گھس کر پرانی کتابوں سے دھول پھونک پھونک کر ایسی دلیلیں ڈھونڈ رہے ہیں، جن سے عدم تشدد، امن پسندی، لبرلزم کو راہ حقیقی قرار دیا جائے۔ اچانک سے نئے خیالات سامنے آنے لگے کہ فیس بک و ٹوئیٹر پوسٹیں لگانا کتنا اہم ہے، آن لائن صحافت کتنا اہم ہے، سب انسانی حقوق کے داعی بن گئے، بہت سے سفارتکاری سے تبدیلی لانے نکلے۔

میرا ہرگز مطلب نہیں کہ ہر ایک بندوق اٹھا کر بس لڑے، میں کہتا ہوں کوئی اگر کسی سرمچار کو ایک گلاس پانی پلا دے تو اس کا جنگ میں بھی کردار شمار ہوگا۔ یعنی کم از اس بات کو سمجھیں اور اسکی حمایت کریں جو مسلح مزاحمت کررہے ہیں، وہ مزاحمت کیوں کررہے ہیں، اس جنگ کا دفاع خود ہی ایک جنگ ہے۔ جس طرح اپنے نرم ملائم دلائل سے ان باشعور سیاسی کارکنوں کے مسلح مزاحمت کو مہم جوئی، نسل پرستی اور فاشزم کہنا ان سرمچاروں کے خلاف نظریاتی جنگ ہے۔

ضروری نہیں ہے آپ بندوق اٹھا کر لڑیں، آپ ہر طرح سے سرمچاروں کے مسلح مزاحمت کا حصہ بن سکتے ہیں، لیکن کم از کم ساتھ میں یہ ادراک بھی رکھنا چاہیئے کہ اگر سرمچار نہیں ہوتے تو آپ کو ایک گلاس پانی پلا کر آپکا کردار نبھانے کا موقع نہیں ملتا۔

آج میں بلوچستان میں دیکھتا ہوں کہ سیاست کے چھوٹے چھوٹے نئے طبقے نمودار ہورہے ہیں، انکے بارے میں اکابرین یہ الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان مذہبی شدت پسند نظریات سے معتدل بلوچ سماج کے سیاسی نظریات کو متاثر نہیں کرسکا تو اسلیئے، بائیں بازو اور لبرل نظریات کی صورت میں بلوچ قوم پرستی کی جڑوں کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ اسلیئے سرخوں اور لبرلوں کے نئے چھوٹے گروہ سامنے آرہے ہیں، جو زبانی طور پر ریاست مخالف نظر آتے ہیں لیکن بند سرکلوں اور عملی طور پر بلوچ مزاحمت مخالف ہیں۔

بلوچ قوم پرستی کی سیاست ہمیشہ ترقی پسند اور بائیں بازو کی جانب مائل رہی ہے، اسی لیئے پنڈی سے قوم پرستوں کو کمیونسٹ اور کمیونسٹ کو لادینیت سے تشبیہہ دیکر انہیں کافر قرار دینے کا فتویٰ بھی ماضی میں گرم رہا۔ بلوچستان میں بائیں بازو کے داعی ہمیشہ قوم پرست رہے ہیں، جو انکے نظریات و عمل سے بھی ثابت رہا ہے اور یہ بھی تاریخی سچائی ہے کہ بلوچوں کی مارکسزم کبھی پنجاب کے سرخوں کو قبول نہیں رہی، لیکن پنجابی سرخے ہمیشہ ریاست کیلئے قابل قبول رہے۔ تو شبہات ضرور جنم لیتے ہیں کہ بلوچ قوم پرستی کے مخالف یہ سوشلسٹ نظریات بلوچ سرزمین سے نہیں پھوٹے بلکہ درآمد ہیں، لیکن قبل از وقت کسی نتیجے پر پہنچے بغیر اتنا کہوں گا کہ عمل کا بھٹی سب واضح کردیتا ہے۔

اگر کوئی بھی سوچ و نظریہ اس حقیقت کو پہچانتا ہے کہ پاکستان ایک قبضہ گیر سامراجی، مرسنری ریاست ہے، جس کے اندر قوموں کی آزادی سلب ہے، بلوچستان کے قومی سوال کو پہنچانتا ہے، اس جابر و قابض ریاست اور اسکے ستونوں کو ڈھانے کیلئے معنی خیز عملی سیاست کرتا ہے، اس غیر فطری ریاست کو اور اسکے استحصالی ادروں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے یا چی گویرا بن کر اپنے نظریات پر عملی طور پر کاربند ہوتا ہے تو وہ صحیح ہے، شکوک و شبہے کی بات نہیں۔ لیکن کوئی خوف کو بڑھاوا دیتا ہے، اپنے خوف کیلئے نئی دلیلیں و تاویلیں پیش کرتا ہے، بے عملی کو حکمت عملی کے پیرہن میں چھپاتا ہے، مبہم مطالبوں و بے معنی و بے اثر سیاسی سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے انہیں وقت کی آواز قرار دیتا ہے، اور جو جان کی بازی لگا کر حقیقی شعوری سیاست کررہے ہیں، انہیں مہم جو، نسل پرست و جذباتی وغیرہ کہہ کر خاموشی سے حوصلہ شکنی کا ماحول پیدا کرتا ہے تو پھر یہ سرخ لباس میں فوجی ہے۔

کلیگولا کا خوف لوگوں کے دلوں میں چار سالوں تک ڈیرہ جمائے رہا، لیکن شاید اسے اندازہ نہیں تھا کہ خوف کا ایک حد ہوتا ہے، جب وہ دلوں سے نکل جائے تو پھر لوگ آخری حدوں تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ سنہ 41 عیسوی کو کلیگولا کو انکے محل میں انکے محافظ سمیت قتل کردیا گیا، اور یوں وہ پہلے سیزر بنے، جو قتل ہوگئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔