ہماری ادھوری کہانی
تحریر: امین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دیومالائی داستانوں اور کہانیوں کی سرزمین، بہادروں اور وطن کی خاطر مرمٹنے والوں کی سرزمین بلوچستان میں ہر فرد کی درد بھری کہانی ادھوری ہے۔ اور کیوں نہ ادھوری ہو کیونکہ ہر داستان اور افسانے میں مرکزی کردار ہمیشہ لاپتہ کیا جاتا ہے۔ دیومالائی قصوں اور کہانیوں میں لوگوں کو لاپتہ کرنے اور انہیں قتل کرنے کے ذمہ دار ہمیشہ غیر مرئی قوتیں ہوتی ہیں اور یہ کہانیاں چودہویں اور پندرہویں صدی کے کرداروں کے گرد گھومتی ہیں لیکن اکیسویں صدی ٹیکنالوجی کی صدی میں ان غیر مرئی قوتوں نے انسان کا روپ دھار کر لوگوں کو لاپتہ کرنے اور انہیں قتل کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پہ لی ہوئی ہے۔
بلوچستان میں کئی خاندانوں کے مرکزی کردار غیر مرئی طاقتوں کے ظلم و جبر کا شکار ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں مرکزی کرداروں کی گمشدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ غیر مرئی قوتیں چاہتی ہیں کہ بلوچستان کا ہر مرکزی کردار لاپتہ ہوجائے اور کوئی بھی کردار ان کی طاقت کو تسلیم نہیں کرے گا تو انہیں اغوا کرکے قتل کردیا جائے گا تاکہ خوف کا ماحول قائم ہو اور ہمیشہ ان غیر مرئی قوتوں کی مسکن گاہ سلامت رہے۔
غیر مرئی طاقتوں کا وطیرہ ہے کہ جب خود سے طاقتور طاقتوں کے سامنے آجاتی ہے تو پتلونیں چھوڑ کر سرینڈر کرنے کو تیار ہوجاتی ہیں لیکن جب مظلوم انسانوں سے مقابلہ ہو تو ظلم کے وہ پہاڑ گرائے کہ نمرود اور فرعون بھی شرما جائے۔
بلوچستان میں فرعون اور نمرود کے باقیات نے ظلم کے وہ پہاڑ توڑے جس نے بلوچستان کے ہر بچے اور بچیوں کی زندگیوں کی کہانیاں ادھوری رہ گئی ہے۔
سمی کی کہانی ہو یا مہلب کی، ماہ رنگ کی کہانی ہو یا حسیبہ کی، فرزانہ کی کہانی ہو یا حانی گل کی، علی حیدر کی کہانی ہو یا نصر اللہ کی اور کتنے سمی اور مہلب ہیں جو اپنے کہانیوں کی تکمیل کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہیں، لیکن وہ غیر انسانی طاقتیں جو انسانی آنکھوں سے اوجھل رہتی ہیں۔ صرف جادو کی چھڑی سے انسانوں کو ڈرا دھماکر، جنت اور حوروں کا لالچ دیکر اپنے ساتھ ملا لیتی ہیں جو انکے اس غیر انسانی کردار کو چھپا کر انسانوں کو ہی مورود الزام ٹہراتی ہیں۔
سمی بلوچ اور مہلب بلوچ جن کی کہانی شروع ہونے سے قبل ہی اختتام پذیر ہوئی کیونکہ انکے کہانی کا مرکزی کردار(ڈاکٹر دین محمد بلوچ) اس وقت غیر مرئی طاقتوں کا نشانہ بنے جب مہلب اور سمی کمسن بچیاں تھی جن کی عمر کھیلنے اور کودنے کی تھی اور انہوں نے اپنے کہانی کا آغاز بھی نہیں کیا تھا۔ لیکن ان بچیوں نے ہمت کرکے اپنے کہانی کی تلاش شروع کردی ہے کہ کہیں نہ کہیں انکے کہانی کا مرکزی کردار غیر مرئی طاقتوں کی قید سے آزاد ہو کر انکی کہانی کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔
کیا حقیقت میں سمی اور مہلب کی کہانی اختتام کی جانب گامزن ہوگی یا ماہ رنگ بلوچ کی طرح مہلب اور سمی اپنی کہانی کے مرکزی کردار کو مسخ صورت میں وصول کرینگے۔ ماہ رنگ اپنے جدوجہد، ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کی وجہ سے مزاحمت کی علامت بن چکی ہے اور امید ہے کہ ماہ رنگ مستقبل میں بھی اپنے جدوجہد جاری رکھیں گی۔
بلوچستان کے ہر فرد کی کہانی ادھوری ہے، ہر فرد سمی اور علی حیدر کی طرح اپنی ادھوری کہانی کا اختتام کرکے اسے مکمل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن کیا ہماری ادھوری کہانی مکمل ہوگی؟ اس سوال کو حل کرنے کے لئے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگی اور یہ ادھوری کہانیاں اسوقت مکمل ہونگی جب بلوچستان سے غیر مرئی طاقتوں کا خاتمہ ہوگا اور انکے خاتمے کے لئے یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا وگرنہ سمی اور مہلب کی کہانی ہمیشہ ادھوری ہی رہے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔