گیارہ جون شہید حمید بلوچ کا یوم شہادت
تحریر: چیف اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج گیارہ جون ہے، آج کا دن ہمیں بلوچستان کے اس عظیم بلوچ فرزند کی یاد دلاتا ہے، جو ہم سے جسمانی طور پر جدا ہے، مگر ان کا فکراور نظریہ آج بھی جاویداں ہے۔ آج شہید حمید بلوچ کے انتالیسویں یوم شہادت پر شہید حمید بلوچ کو سرخ سلام پیش کرتا ہوں۔ جنہوں نے ایک عظیم مقصد کے لیے نہ صرف اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا بلکہ دنیا کے محکوموں کے لیے جدوجہد کی راہ ہموار کرتے ہوئے انہیں یہ آدرش دیا کہ کوئی بھی سامراج تمہیں جسمانی اور نظریاتی طور پہ مقید نہیں کرسکتا، اگر تم جذبہ حریت سے لیس ہو تو۔ کامریڈ حمید بلوچ اسی نظریے سے مسلح تھا اور ہمہ وقت نہ صرف اپنی قوم اور وطن کی آزادی کا پرچار کرتا تھا بلکہ دنیا کے محکوموں کو بھی جذبہ حریت کا درس دیتا رہا۔ اسی جذبے کے تحت بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کی خاطر پھانسی کے پھندے کو بخوشی چوم کراپنے گلے میں ڈال دیا تاکہ قابض پاکستان کے حکمران اور سامراجی قوتیں یہ جان لیں کہ کوئی بھی انقلابی اپنی قوم، اپنی سر زمین اور دنیا کے دیگر محکوم و مظلوم اقوام کے لیے اپنا سر کٹا سکتا ہے لیکن جھک نہیں سکتا اور اپنی جان نثار کرتے ہوئے یہ ثابت بھی کیا کہ حمید نہ صرف اپنی قوم اور سرزمین کا بیٹا تھا بلکہ وہ دنیا کے دیگر محکوموں کا رکھوالہ بھی تھا۔
شہید حمید بلوچ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(BSO )کا ایک سرگرم کارکن تھا اور اپنے وصیت نامے میں کہتا ہے کہ “مجھے اس بات پر کوئی پشمانی نہیں اور مجھے اس بات کا دکھ بھی نہیں ہے کہ میں اس دنیا سے رخصت ہورہا ہوں۔ میری زندگی اس انداز رخصتی کے بعد اور بھی خوبصورت ہوگی۔ میری شہادت پہ حالیہ نسل آنے والی نسلیں فخر کرتے ہوئے ہر محفل میں میری جدوجہد اور میرے فکر کو تاابد زندہ رکھیں گے، ان کا یہی طرز قومی فکر کو مزید وسعت دینے کے اسباب فراہم کرے گا۔ اس قومی ذمہ داری کو اپنا قومی فرض سمجھتے ہوۓ اور اپنے قوم کی سیاسی تربیت شعوری بنیادوں پہ کرنے کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا، اس عمل کو سرانجام دینے کے لیے پہلے پہل اپنی ذات میں قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا کہ انقلاب میں سب کچھ نچھاور کرنا پڑتا ہے اور سب کچھ لٹانا پڑتا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر مستقبل میسر ہو، جب اس نظریہ و فکر سے انقلابی لیس ہونگے تو پھر لوگ قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے بلکہ وہ ہر طاقت کا مقابلہ فکری و شعوری بنیاد پر کرینگے اور دنیا میں ایک زندہ قوم کے طور پر نمودار ہوتے ہوۓ ثابت کریں گے۔ ایسے اقوام ہی دراصل قابض اور سامراجی قوتوں کو اپنی سر زمین سے بھاگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اگر زندگی بے مقصد اور غلامی میں بسر کی جاۓ تو وہ ایک لعنت سے کم نہیں ہے۔ میں نے ایک انقلابی کی مانند دشمن کو شکست دینے کی حلف اٹھایا ہے، اسی میں فخریہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں اپنے مشن میں ناکام ونامراد نہیں ہوا بلکہ میری جدوجہد کے ساتھی، عزیز اور میرے قوم کے بچے میرے اس مشن کو ایک نہ ایک دن ضرور پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ سامراجی طاقیں بلوچ قوم کے فرزندوں کو پھانسی پر چڑھانے میں ختم کرنے کی کوشش پرلگے ہوۓ ہیں۔ یہ ریاست کی بھول ہے کہ قومیں مرنے سے ختم نہیں ہوتےہیں بلکہ مزید پختہ اور دلیر بن جاتے ہیں۔ سامراج اور قابض کو یہ بھی یاد دہانی کراتا ہوں کہ قوم ان عظیم فرزندان کی سوچ فکرونظریہ کو کبھی ختم نہیں ہونے دیتا ہے اور میری سوچ اور نظریہ مظلوم اور باشعور اقوام کو یہ باور کرائے گا کہ ایک حمید کی شہادت سے ہزاروں اور حمید جنم لیں گے۔”
آج اس عظیم انقلابی کامریڈ حمید بلوچ کی انتالیسواں یوم شہادت ہے۔ اس دن کی مناسبت سے بلوچ قوم اپنے عظیم شہید کو سرخ سلام اور خراج عقیدت پیش کرتی ہے، جس نے بلوچ قوم، بلوچ سر زمین اور محکوم ظفاریوں کی خاطر قربان ہوتے ہوۓ پوری دنیا میں بلوچ قوم کو اور بلوچ قومی تحریک کو ایک روشن نام بخشا۔ شہید نے اپنی قوم اور سرزمین کی خاطر سامراجی قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ھم سب کی قومی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خلوص نیت سے ان شہداء کی سوچ وفکر کو آگے لے جائیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنے آزاد وطن کے مالک بن جائیں اور مفاد پرستی ضد و انا فرسودہ قبائلی نظام پنجاب کی بالا دستی کے خلاف اور ہر اس عمل کے خلاف جو بلوچ قوم اور بلوچستان کی آزادی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، اُن کے خلاف جدوجہد کرنا ہم سب کا قومی فرض بنتا ہے۔ شہداء کے مشن کو اُس وقت پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے، جب ہم قومی سوچ اور اجتماعی فکر کو پروان نہیں چڑھائیں گے آو یہ عہد کریں کہ یکمشت ہو کر شہداء کے فکر کو منزل تک پہنچائیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔