بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4005 دن مکمل ہوگئے۔ نوشکی سے سیاسی و سماجی کارکن میر عبدالواحد بلوچ، خیرجان اور دیگر افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ، لاپتہ عبدالحئی کرد بلوچ کی بہن نصرین بلوچ نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
وی بی ایم کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسان اس قدر سنگ دل اور بے حس بھی ہوسکتا ہے کہ ہزاروں انسانی لاشوں کو روندتے ہزاروں ماوں کے آنسووں سے کھنڈرات بنے ہوئے مکانات اور پوری انسانیت کا قتل صرف اور صرف اقتدار کا غلام بن کر اقتدار کی کرسی پر بیٹھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے انسان جو اسے اقتدار کا نام دیکر گناوں کو چھپانے کی خاطر جھوٹ پر مبنی قلعہ قائم کرنے کی تگ دو میں رہتے ہیں وہ جو اقتدار اور طاقت کے نشے میں ہوتے ہیں پوری انسانیت کو روند کر بھی مجرم نہیں ٹھہرتے ہیں۔
ماما قدیر کا مزید کہنا تھا کہ آج انسانوں کو کسی درندہ جانور سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ انسان خود درندہ بن چکا ہے۔ تاریخ کے کتابوں میں ظم کی داستانیں ملتی ہے۔ ظالم حکمرانوں نے اقتدار کی خاطر انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنایا کرتے تھے انہیں انسانیت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا، مقصد اقتدار کے بھوک کو ختم کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ نے اسے پتھروں کے دور کا نام دیا افسوس کہ اکیسویں صدی میں بھی ایسی منظر کشی کا آغاز ہوچکا ہے آج بلوچستان مسخ شدہ لاشوں کے انبار، پہاڑیں اور گلیاں خون میں نہا گئیں، زندہ چلتے پھرتے بلوچ درگور ہیں، معصوم بچے اپنے جلے ہوئے گھر کے راکھ کے ڈھیر پر بیٹھ کر ماتم کررہے ہیں۔
لاپتہ طالب علم رہنماء شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ، لاپتہ عبدالحئی کرد کی بہن نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
شبیر بلوچ بی ایس او آزاد کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری تھے جب انہیں 4 اکتوبر 2016 کو بلوچستان کے علاقے کیچ سے لاپتہ کردیا گیا تھا۔ بی ایس او آزاد اور ان کے لواحقین کا موقف ہے کہ شبیر بلوچ کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔
شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ میرے بھائی کوفرنٹیئر کور نے اٹھایا ہے جس کی واضح گواہ ان کی اہلیہ زرینہ بلوچ اور 36 افراد ہیں لیکن ایف سی اور خفیہ ادارے کے افراد انہیں لاپتہ کرنے سے انکاری ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنا احتجاج کرنے کے باوجود نہ ان کا ایف آئی آر درج ہوا اور نہ اس کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور نہ ان کو منظر عام پر لایا جارہا ہے جس کے باعث ہم سارے گھر والے سخت پریشانی اور کرب کی حالت میں زندگی جی رہے ہیں۔
عبدالحئی کرد کی ہمشیرہ کا کہنا ہے کہ دو سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود میرے بھائی کا کوئی پتا نہیں چل سکا نہ ہی اسے کسی عدالت میں پیش کرکے اس کو قانونی حقوق دیئے گئے ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کے عالمی انسانی حقوق کے ادارے، بلوچ سیاسی جماعتیں و سپریم کورٹ آف پاکستان سے میں اپیل کرتی ہوں کے وہ میرے بھائی کے بازیابی میں ہماری آواز بنیں اور میرے بے گناہ بھائی کو منظرے عام پر لاکر فری ٹرائل کا موقع دیا جاسکے۔