کارفروبستہ سیاست – برزکوہی

740

کارفروبستہ سیاست

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ایک حدتک ڈنک واقعے کے ردعمل میں عدم تشدد پر مبنی ردعمل یا عوامی تحریک قابل ستائش ہے اور اندھے آنکھ سے ایک قطرہ آنسو کے مصداق غنیمت ہے بلکہ عوامی تحریک کے لیے طویل خاموشی کے بعد ایک راستہ و افتتاح کی بنیاد ہے۔ مگر آج تک ہر میدان میں خواہ وہ مسلح جدوجہد ہو یا غیر مسلح جدوجہد، ہم دانستہ یا نا دانستہ طور پر مبہم مطالبات، مبہم اعلانات، مبہم نعروں، مبہم تقریروں، مبہم نکات، مبہم شرائط، مبہم پیغامات و درخواستوں وغیرہ کا سہارہ لیتے ہیں۔ ان مبہم خیالات کے بھیڑ میں ہم ایک مقام پر آکر رک جاتے ہیں کیونکہ لائن آف ایکشن واضح نہیں ہوتا، جب بھی کوئی پروگرام خود کنفیوژن کا شکار ہو وہ غیر واضح شکل میں دیرپاء ثابت نہیں ہوسکتا، وہ پھر خاموشی و سردمہری کا شکار ہوکر ختم ہوجاتا ہے، اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ غیر واضح پروگرام کا ہونا ہوتا ہے۔

سیاست و سیاسی عمل کا معنی و مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ اپنے مسائل کی نشاندہی کرکے، علت کی تشریح کرکے، حل بتایا جائے اور پھر اس حل کیلئے کوشش کی جائے۔ جب مسئلے کا نشاندہی غلط ہو، مسئلے کی حقیقی وجہ کی تشریح درست نا ہو پھر درست حل کبھی پیش نہیں کیا جاسکتا، اسی لیئے پھر دیئے گئے نعرے و پروگرام مبہم ہوتے ہیں، ایک مبہم حل کیلئے کوشش کبھی بارآور ثابت نہیں، وہ سیاسی عمل بننے کے بجائے پورے پروسس سے کٹا ایک سرگرمی بن کر رہ جاتا ہے، جو پھر وقت کے دھول کے دبیز تہہ میں دب کر گم ہوجاتا ہے۔

یعنی برمش کو انصاف دو؟ انصاف کس سے؟ انصاف و نا انصافی کرنے والا اور انصاف دینے والا کون ہے؟ شہید ملک ناز کے قاتلوں کو پھانسی دو، سزا دو، کس سے مطالبہ؟ قاتل و مقتول کا رشتہ کیا ہے؟ یہ مدتوں کی کہانی کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں پر ختم ہوگی؟ شہید نواب اکبرخان بگٹی کے قاتل مشرف کو گرفتار کرو، گرفتار کرلو جی، گرفتار ہوگیا مشرف اور پھانسی پر چڑھ بھی گیا، کیا فرق پڑے گا؟ یا پھرسردار اختر مینگل صاحب کے 6 نکات، جن پر سردار اختر صاحب خود اعتراف کرتے ہیں کہ بابو آغا کریم سے دھوکا ہوا، نوروز خان سے دھوکا ہوا، اکبر خان سے دھوکا ہوا۔ پھر بھی میں سردار صاحب دھوکے بازوں کے بازار میں تڑپ تڑپ کر دھوکا کھانے جاؤں گا اور اس بِل میں ہاتھ ڈالتا ہوں جہاں سے سانپ نے پہلے سے ہمیں ایک بار نہیں بار بار کاٹا ہے، پھر جناب قصور سانپ کا نہیں آپ کا ہے۔ لاپتہ بلوچوں کو بازیاب کرو، لاپتہ کس نے کیا؟ جس نے لاپتہ کرتے وقت پرواہ نہیں کی اب آپ کی سن کر اسکی انسانیت کیسے جاگ جائیگی۔ ان غیر واضح پروگراموں، اپیلوں، مطالبات میں ہمارا عوام کچھ دیر سفر کرکے آخر کار تھک ہار کر خاموش و بیگانہ ہوجاتے ہیں۔

آج تک دنیا میں کوئی ایک معمولی مثال پیش کرسکتا ہے کہ ظالموں نے اپنے زیردست مظلوموں کے مطالبات پورے کیئے ہوں؟ اگر انہوں نے کہیں کچھ کیا بھی ہے تو وہ بھی مظلوم کے مفاد میں نہیں ہوتا بلکہ ظالم اپنے مفاد کی خاطر کرتا ہے۔

فرض کریں، آج پاکستان ملک ناز و برمش کے قاتلوں کو پھانسی پر چھڑا دیتا ہے، کیا یہ ہمارے ساتھ انصاف ہے؟ چند ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے نہیں بلکہ پاکستان ایک ساتھ 50 ڈیتھ اسکواڈ والے اس ڈنک واقعے پر سولی پر چڑھا دے، فائدہ بلوچ کا نہیں پاکستان کا ہوگا کیونکہ سادہ لوح بلوچ مطمئین ہونگے اور وہ قاتل ہاتھ کسی برگیڈیئر، کرنل، میجر وغیرہ کے شکل میں بدستور موجود رہیں گے، جو بعد میں پچاس کے بدلے سو اور کارندے تیار کرینگے۔ جب پاکستانی فوج اپنی بقاء کی خاطر اپنے ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر قدیر کو رسواء و ذلیل کرسکتا ہے، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر کو قتل کرسکتا ہے تو پھر کیا اوقات رہتی ہے چار ٹکے کے شفیق مینگل، قمبر مینگل، راشد پٹھان، سمیر سبزل وغیرہ کا؟

اسی طرح ہم مسلح جدوجہد کے حوالے سے ایسے لغو قسم کی دلیلیں پیش کرتے ہیں کہ علم و منطق سر پٹختا رہ جائے، یعنی ہم اس وقت لڑینگے جب ہمیں دنیا مکمل سپورٹ کرے، ہم اس لیئے نہیں لڑرہے کیونکہ ہمیں دنیا سپورٹ نہیں کررہا ہے، ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، ہم نے کبھی تاریخ میں نہیں پڑھا کہ سنگت کاسترو، سنگت چی گوئرہ، سنگت ہوچی منہ اس لیے نہیں لڑے کہ ان کے پاس وسائل نہیں تھے، آج تک دنیا میں کس قوم، کس ملک، کس طاقت، کس ہمدرد نے آپ کو گھر میں چار زانوں بیٹھا دیکھ کر کہا ہے کہ آو ہم تمہاری مدد کرتے ہیں۔ دنیا، قوم اور حالات سب اسکی مدد کرتے ہیں، جو ابتداء خود کرتا ہے، پہلے اپنی مدد آپ کرتا ہے۔

میں بار بار دہراؤں گا اور کہتا رہوں گا کہ جب مضبوط تنظیم، مضبوط ڈسپلن اور باصلاحیت و باکردار، بہادر اور مخلص لیڈرشپ موجود ہوگا تو پھر دنیا کی سپورٹ کی ہمیں ضرورت ہی نہیں رہے گی، اور جس وقت ہمیں ضرورت ہی نہیں رہے گی، تب پوری دنیا خود سپورٹ کرنے آئیگی۔ ایک بار یاد رکھی جائے وسائل نہیں قوم جنگ لڑتی ہے۔

حالات ہمارے حق میں نہیں ہیں، دنیا کے مفادات تبدیل ہوچکے ہیں، ہماری تقسیم در تقسیم کی وجہ سے ہمیں کوئی سپورٹ نہیں کرتا، جی ہم سفارتکاری میں ناکام ہوچکے ہیں، جی ہمارا کوئی سیاسی عمل ظاہر نہیں ہے بلکل یہ اس وقت حقیقت اور مدلل چیزیں ثابت ہونگے جب آپ کے پاس تنظیم، ڈسپلن اور لیڈرشپ موجود نہیں ہوگا یا تو پھر ہمیں تنظیم، ڈسلپن، لیڈرشپ کے خوشنما بھڑک بازیوں کو چھوڑنا ہوگا یا پھر تسلیم کرنا ہوگا کہ متذکرہ دلائل من گھڑت اور لغو قسم کے منطق کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔ دراصل سب ہماری اپنی کمزوریاں ہیں۔ جن کو ہم خوبصورت جواز فراہم کررہے ہیں۔

میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ روایتی سیاست کی دوروغ گوئی، دھوکا بازی، خوش فہمی، بھڑک بازی کے جراثیم اتنا لہو بہانے کے باوجود بھی اب تک ہمیں ہر جگہ ملتے ہیں کیوں؟ عقل ضرور موجود ہے، بطور علم و فن حاصل کرنے کی خاطر ایک آلہ و ذریعہ مگر حاصل علم کو سمجھنے کے لیے شعور درکار ہوتی ہے، وہ شعور موجود نہیں ہے، اس لیے ہم یہ سن کر کہ کتا کان لے گیا ہے، ہم کان کو دیکھنے سے پہلے کتے کے پیچھے بھاگنا شروع کردیتے ہیں۔

کچھ بد خصلتیں، روایتی و پاکستانی سیاست کی پہچان ہیں، پاکستانی طرز سیاست کرنے والے ختم نہیں ہونگے، لیکن جب قومی آزادی یا انقلابی سیاست و جنگ کی بات ہوتی ہے تو ایسے روایتی سیاست کی بیماریاں ملیں تو انتہائی نفرت کا مقام ہوتا ہے، تو پھر صرف ہاتھ میں بندوق یا پھر آزادی کی بات کرنا ہمیں حقیقی آزادی پسند اور انقلابی نہیں بنا سکتا، اس طرح پاکستانی یا روایتی طرز کے شکار پاکستان میں ہزاروں سوشلست انقلابی لیڈر، کارکن و دانشور موجود ہیں، ان کا فائدہ کیا اور ان سے عوام کو فائدہ کیا ہوا؟

مثلاً اخترمینگل بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی یا 6 نکات کی خاطر پاکستانی حکومت اور فوج کے شانہ بشانہ ہوتا ہے، کارکن اور سادہ لوح بلوچ خوشی سے بغلیں بجانا شروع کرتے ہیں، جب الگ ہوتا ہے پھر خوشی سے بغلیں بجانا شروع ہوجاتے ہیں، جس طرح پاکستانی عوام جب نواز شریف اقتدار میں آتا ہے تو مٹھائی تقسیم کرتے ہیں، جب سبکدوش ہوتا ہے پھر مٹھائی تقسیم کرتے ہیں۔ بلوچ قوم، بلوچ نوجوانوں خاص طور پر آزادی پسندوں میں جب تک یہ روایتی طرز کے رویے، خصلتیں، ذرہ برابر بھی موجود رہے، اس وقت تک ہماری منزل کی طرف گامزن تحریک میں ہمیں رکاوٹ اور مشکلات کا بہت سامنا ہوگا، کہنے کا مقصد برمش احتجاجوں سے لیکر بندوق سے نکلی ہوئی گولی تک ہمیں اپنے ہر عمل پر سوچنا ہوگا اور سمجھنا ہوگا کہ ہمارا طرز پاکستانی طرز سیاست کا شکار تو نہیں ہورہا ہے، جو سراسر آزادی کی جدوجہد میں زہر قاتل خصلتیں ہیں۔

برمش سمیت ہر ایسے دلخراش واقعے پر بھرپور احتجاج ہو، مظاہرہ ہو، بھوک ہڑتال ہو، جلاو گھیراو ہو، سب کچھ ہو مگر نکات، مطالبات، قرارداد واضح اور حقیقت پر مبنی ہوں، بس دنیا کو اتنا بتانا ہو کہ بلوچ قوم اور بلوچستان پر پاکستان کی طرف سے وار ہورہا ہے، دنیا مداخلت کرے، دنیا کرے یا نہیں کرے کم از کم بلوچ قوم میں اگاہی و شعور پیدا ہوگی، موبلائزیشن کا ایک عمل شروع ہوگا، مبہم مطالبات و نعروں اور اپیلوں سے عوام کو موبلائز کرنا ممکن نہیں، پھر ہر تحریک جھاگ کی طرح ایک ابھار کے بعد فوراً بیٹھ جائے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔