بلوچ وومن فورم کے ترجمان نے تربت ڈہنک میں پیش آنے والے واقعہ کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈہنک میں پیش آنے والا واقعہ بلوچستان کے لوگوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے، ایسے واقعات اب بلوچستان میں معمول بن چکے ہیں، بلوچستان میں روز مرہ کی بنیاد پر ریاستی کارندے اور ان کے ڈیتھ اسکواڈ لوگوں کے گھروں میں ڈکیتی، بلوچستان کے علاقوں میں منشیات فروشی اور اغواء برائے تاوان کے کاموں میں ملوث ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ 26 مئی کو تربت کے علاقے ڈہنک میں سمیر سبزل کے ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں شہید ہونے والی بلوچ ماں، ملک ناز اور ان کی بیٹی برمش جو زخمی ہوئی تھی ،آج بھی باقی بلوچوں کی طرح انصاف کی منتظر ہیں مگر حکومت اصل ملزم سمیر سبزل اور اس کے باقی ساتھیوں کو بچانے کے لئے اس واقعہ کو صرف چوری اور ڈکیتی کا رنگ دے کر معاملے کو دبا رہی ہے جبکہ سمیر سبزل اور اس کے ساتھی آزاد گھوم رہے ہیں۔
ترجمان نے ملک ناز کی بہادری اور قربانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ بانک ملک ناز اور ان کے ہمسایوں کی ہمت اور بہادریوں نے اس دفعہ ریاستی ڈیتھ اسکواڈ اور چوروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا اور حکومت نے عوامی دباؤ سے مجبور ہوکر اِن چوروں کو گرفتار کیا۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں مزید کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جن میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ، یونیورسٹی اسکینڈل اور کئی ایسے واقعات شامل ہیں لیکن ان مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے اور حکومتی وزرا کی سرپرستی میں یہ ڈیتھ اسکواڈ لوگوں کے گھروں میں کھلے عام ڈکیتی اور خواتین و بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
حکومت اس مسئلے کو حل کرنے اور ملزموں کو گرفتار کرنے کی بجائے مسئلے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے جو ایک تشویشناک عمل ہے، حکومت کو چاہیے کہ وه اصل ملزمان کو گرفتار کرے تا کہ برمش اور ملک ناز اور اِن جیسے ہزاروں بلوچ خواتین کو انصاف ملے جو ان ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔