پسماندہ گریشہ
تحریر: خالد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گریشہ خضدار کا ایک پسماندہ تحصیل ہے، جہاں اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں بھی لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
گریشہ کے عوام کی پریشانیوں میں سے ایک سب سے بڑی پریشانی سڑکوں کی خستہ حالی ہے، اندازے کے مطابق گریشہ کے 80 فیصد لوگ زراعت سے منسلک ہیں۔ یہاں اگنے والی فصلیں گندم، جو، پیاز، کپاس، جوار، باجرہ، تربوزہ اور خربوزہ ہیں۔ گریشہ میں سبزی اور فروٹ کی مارکیٹیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنا گندم، پیاز، کپاس، آلو اور دوسری زرعی پیداوار کراچی یا کوئٹہ کے منڈیوں تک لیجانا اور وہاں بیچنا پڑتا ہے۔ لیکن سڑکوں کی خستہ حالی کی وجہ سے روزانہ سڑک حادثات کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔
روڈوں کی خستہ حالی کی وجہ سے گاڑی مالکان، اب فصل کھیتوں سے اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے یا پھر دوگنا کرائے کا مطالبہ کرتے ہیں، کسانوں کی آدھی آمدنی رسد پر خرچ ہوجاتی ہے۔ گریشہ گری سے گونی تک کے روڈ کی منظوری دوہزار انیس میں ہوا تھا۔ لیکن ٹھیکیدار نے روڈ بنانے کے بجائے مزید خستہ حال کردیا۔ کچھ جگہ بھرائی کی لیکن وہ بھرائی بھی بارشوں کے بعد پانی میں بہہ گیا۔ گذرنے والے ندیوں پر پل نہیں لگوائے گئے تھے۔ سارے بھرائی کا مٹی بارشوں کے پانی سے بہہ گیا، اب روڈ پہ جگہ جگہ دلدل اور کھڈے ہیں۔ روزانہ روڈ حادثات ہورہے ہیں۔ ابھی دو دن پہلے کی بات ہے کہ کراچی ٹو گونی گریشہ جانے والا ایک ٹرک جو خالی بوری/باردانہ سے لوڈ تھا، پتنکنری کے مقام پر الٹ گیا۔
روڈ کی خستہ حالی اور جگہ جگہ پر کھڈے اور کھائی کی وجہ سے گریشہ ٹو نال کا سفر تین چار گھنٹے میں طے ہورہا ہے، واضح رہے کہ گریشہ میں بڑی دکانیں نہ ہونے کی وجہ سے گریشہ کے لوگوں کو زرعی سامان اورخوردو نوش کے اشیاء اور دوسری سودا سلف لینے کے لیےنال جانا پڑتا ہے۔
ہرسال کئی افراد بیماروں یا حادثات کا شکار ہونے کے بعد روڈ نہ ہونے کی وجہ سے بروقت ہسپتال پہنچنے سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں۔
گریشہ کی عوام ایک دفعہ پھر اعلیٰ حکام سے اپیل کرتی ہے کہ گریشہ کے روڈ گری ٹو گونی تک جلد از جلد منظور کیا جائے تاکہ لوگ دوسری پریشانیوں سے بچ سکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔