پانچواں مخفی ستون – برکت مری

630

پانچواں مخفی ستون

تحریر: برکت مری

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان کے تمام معاملات و مسائل کے حل اور ملک کے وسیع تر مفادات چار ستونوں (عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، میڈیا) کے اردگرد گھومتے نظر آتے ہیں لیکن ان میں ایک ستون ہے، جو ہر کسی کو نظر نہیں آتا ہے۔ کسی بھی ریاست کی تعمیر و ترقی میں ان چاروں ستونوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور ان سب کا ایک دوسرے پر اعتماد نہایت ضروری ہے۔

ریاست پاکستان میں یہ چاروں ستون ظاہری طور پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں مگر ان چاروں ستونوں کو اپنی جگہ پہ برقرار رکھنے کے لئے ایک ستون اور بھی ہے جو کہ نظروں سے پوشیدہ ہے۔ شاید اسی لئے اس ستون کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ چاہے تو ان چاروں کو ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس کر سکتا ہے اور جب چاہے جتنا چاہے ان سب کو جھکا سکتا ہے۔

ریاست پاکستان میں جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لئے ‘طاقتور ستون ‘ کی رضامندی ضروری ہے۔ جمہوریت کیسے چلنی ہے، کس نے چلانی ہے اور کب تک چلنی ہے یہ سب فیصلے ‘طاقتور ستون ‘ ہی کرتا ہے۔ طاقتور ستون حقیقی جمہوریت کے بجائے ‘ ہائبرڈ ڈیموکریسی ‘ چاہتا ہے۔ Robert Kaplan کے بقول ‘ ہائبرڈ ڈیموکریسی ‘ ایسا گورننگ سسٹم ہے جس میں بظاہر الیکشن تو ہوں مگر عوام کو اس بات سے بے خبر رکھا جائے کہ اصل طاقت کا سر چشمہ کون ہے اور اس مقصد کے لئے لوگوں کے سول رائٹس کو مخدوش کیا جاتا ہے۔

‘طاقتور ستون ‘ کے کام کرنے کا طریقہ بڑا دلچسپ اور منفرد ہے۔ وہ ریاست کے دو ستونوں کو آپس میں لڑا دیتا ہے اور جس کو چاہے شکست اور جس کو چاہے کامیاب کرا دیتا ہے۔

میڈیا کی آزادی کو جمہوریت کی اساس سمجھا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے ‘طاقتور ستون ‘ اپنا کردار بخوبی ادا کر رہا ہے۔ کون سا چینل چلنا ہے اور کون سا بند کرنا, کون سی خبر چلنی ہے کس کی خبر چلنی ہے اور کیسے چلنی ہے یہ سب طاقتور ستون کی مرضی سے ہی ممکن ہے۔

مقننہ یعنی پارلیمنٹ کی طاقتور ستون کے سامنے نہ تو کوئی عزت ہے اور نہ ہی حیثیت۔ جب بیگم نصرت بھٹو کیس، جسٹس حمود الرحمن کیس ایسے چند واقعات رونماہوئے تو ریاست کے ستونوں میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا اور عدلیہ کو بھی ریاست کا تیسرا ستون تسلیم کر لیا گیا۔

جب پرنٹ میڈیا کے عروج کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہوا اور اکیسویں صدی کے آغاز میں دنیا الیکٹرانک میڈیا کے چنگل میں پھنسی تو پاکستان بھی گلوبل ویلج کا حصہ بن کر اس سے محفوظ نہ رہ سکا اور الیکٹرانک میڈیا کی پرائیوٹائزیشن نے اپنے قدم جمائے تو پاکستان کے سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی حلقے اور عسکری وجوڈیشری اس کے اثر سے ثمر آور ہوئے تو میڈیا ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت سے اپنے آپ کو متعارف نہ صرف کروا چکا تھا بلکہ کنگ میکر کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

۔پاکستان کوبنے ہوئے 73واں سال کا عرصہ چل رہا ہے لیکن بلوچستان کے احساس محرومی کل بھی تھا آج بھی ہے، نہ انہیں حل کرنے کی چاہ کی گئی، نہ پانچواں ستون بلوچستان کے معاملات حل کرنے کے حق میں ہے، بلوچستان کے دیگر چلتن پہاڑ جیسی معاملات کا حل تو کجا اس صوبے کو غلطی سے انٹرنیٹ کی سہولت دی گئی اس صوبے کے لوگوں کو یہ سہولت دیا گیا جن کے پاس موبائل خریدنے کی سکت نہیں پھر انہوں نے اس نہ دیدان گڑی دان چیز کو دیکھ کر ماں بہنوں نے اپنے زیور بیچ کر اپنے بچوں کی خوشیوں کو پورا کرنے کیلئے موبائل خریدکر دے دیا۔ جب انہیں انٹرنیٹ سوشل میڈیا کی اہمیت کا پتہ چلا ان میں حق و انصاف کی سمجھ آگئی تو انہوں نے اپنے پر ہر ظلم نہ انصافی کو سوشل میڈیا کی زینت بنا دی، جس سے انٹرنیشنل میڈیا بین الاقوامی سطح پر بلوچستان کی احساس محرومیوں کے حوالے سے آوازیں اٹھیں، دنیا کے امیر ترین صوبے میں غربت کے چرچے شروع ہوئے، اقوام متحدہ نے باقاعدہ طور پر بلوچستان کو دنیا کا غریب ترین صوبہ قرار دے دیا، جب ہر چیز کی معلومات شئیر ہونا شروع ہوئی اسٹوڈنٹس دنیاوی و سائنسی ٹیکنالوجی کے جدید علوم سے منسلک ہوئے تو کسی کو یہ گوارا نہیں ہوا فوراً بلوچستان کے آواز کو دبانے کیلئے سوشل میڈیا کو بلوچستان میں بند کردیا گیا۔

جب اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے بلوچستان میں انٹرنیٹ کی بندش آن لائن ایجوکیشن کے متاثر ہونے پر احتجاج و ریلیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہی امید ابھر آئی شاید تبدیلی آئے گی لیکن کچھ نہ ہؤا انٹرنیٹ کی بندیش پر ایک کیس عدالت میں داخل ہوئی لیکن کچھ نہیں ہوا انٹرنیٹ کی بندش پر نیشنل اسمبلی میں آوازیں بلوچستان میں نا انصافیوں کی آواز بلند ہوگئی کچھ نہ ہؤا جب میڈیا میں ان کے چرچے زبان زدِ عام ہوئے تو کچھ نہیں بنا۔

مندرجہ بالا وہ چاروں ستون جو پاکستان کے آئین کی زینت بنے ہوئے ہیں، جو ہر صوبے کے سلیبس میں پڑھائی کی زینت ہیں، وہ سب پانچویں ستون کے آگے بے بس ہیں، تو حقوق کی باتیں کتابوں میں اچھے ہیں، چاروں ستون ستون ہی میں ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔