نو آبادیاتی نفسیات اور بلوچستان
تحریر: زینو بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مزاحمتی تحریک میں نفسیاتی عوامل کو جانچنا اور سمجھنا بہت ہی اہم ہوتا ہے. کہا جاتا ہے کہ کسی بھی جنگ کا نصف حصہ نفسیاتی جنگ پر مشتمل ہوتا ہے. مزاحمت کاروں کو دشمن کی نفسیاتی چالوں کو سمجھ کر خود کو اور اپنے لوگوں کو انکی گرفت سے محفوظ کرنا اور اسی طرح دشمن پر نفسیاتی وار کر کے انہیں ہر وقت خوف و حراس میں مبتلا کرنا ہوتا ہے. بلوچ مزاحمتی تحریک کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ یہ پوری کامیابی کے ساتھ نفسیاتی طور پر دشمن پر حاوی ہو چکا ہے. سماج کے تعلیم یافتہ، باشعور اور تخلیقی لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنا اور عدم اعتماد کا شکار ہونا اور لوگوں کے حقیقی نمائندوں سے گھبرانا، آئے دن عام عوام کو تنگ کرنا، غیر اخلاقی عناصر کی پشت پناہی کرنا، ڈرگ مافیا اور لینڈ مافیا کو تقویت دینا اور ڈیتھ سکواڈز کو تشکیل دیکر اپنے ناجائز عزائم کو فروغ دینا، یہ سب اس بات کی ثبوت پیش کرتی ہیں کہ دشمن اخلاقی طور پر زیر ہو چکا ہے اور عام مقبولیت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے. مزاحمتی اور مفاہمتی گروہ دونوں ہی ریاست کی جبر و تشدد سے بیزار ہو چکے ہیں اور ریاست مجبور ہو چکی ہے کہ غیر اخلاقی کاموں میں ملوث، ڈرگ مافیا اور لینڈ مافیا کے لوگوں کو دھاندلی سے الیکشن جتوا کر پارلیمنٹ تک پہنچائے. یہ سب بلوچ مزاحمتی رہنماؤں کی دشمن پر زبردست نفسیاتی برتری کی عکاسی کرتی ہیں.
نفسیاتی جنگ جتنا اہم ہے اتنا نازک بھی ہے. اسلیئے نفسیاتی جنگ جسمانی طور محنت طلب ہے ہی مگر جسمانی محنت کے ساتھ ساتھ اسکے لیے شعوری پختگی اور آگاہی بھی بہت ضروری ہوتی ہے. بلوچ مزاحمتی قیادت کی تمام تر کامیابیوں اور دشمن کی قیادت پر فوقیت کے باوجود کچھ اندرونی کمیاں بھی پائی جاتی ہیں، جنکا دن بدن بہتر انداز اور زیادہ تیزی سے ازالہ ہوتا جا رہا ہے. اور جتنا اہمیت میدان کو دی جا رہی ہے اتنا ہی نفسیاتی جنگ کو دی جا رہی ہے. اور اسے میں بلوچ مزاحمت کاروں کی کامیابی سمجھتا ہوں. کیونکہ مزاحمتی تاریخ میں بہت ہی کم مثال ملتی ہیں جن میں نفسیاتی عوامل میسر انداز میں استعمال کی گئی ہوں.
اسی طرح مزاحمتی ادب میں بھی جنگ کی نفسیاتی پہلو پر باضابطہ مواد خاطر خواہ مقدار میں نہیں پایا جاتا. اگرچہ کبھی بھی اسکی اہمیت سے انکار نہیں کیا گیا. مگر جدید جنگوں میں اسکی اہمیت پر مزید زور دی گئی، خصوصاً نوآبادیاتی زمانے میں جب نوآبادیاتی قوتوں نے محض اپنی مفاد کی تحفظ اور اپنے ناجائز عزائم کو پورا کرنے کے لیے مقامی لوگوں کو نفسیاتی الجھنوں میں ڈال کر، حتٰیٰ کہ ضرورت پڑنے پر انکی تاریخ اور ثقافت کو بھی مسخ کرکے اپنے لیے استحصال کی راہ ہموار کیے.
اس ضمن میں الجیریا کے انقلابی جہد کیلئے فرانٹز فینن کی رہنمائی بہت ہی مؤثر رہی اور نہ صرف الجیریا کے انقلابی عہد میں انقلابیوں کے لیے کارآمد ثابت ہوئے بلکہ بعد میں آنے والے انقلابی تحریکوں کے لیے بھی معاون رہے اور آج بھی انکی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا. فینن نے فرانس میں نفسیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور باقاعدہ ماہر نفسیات کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دیں. اور بعد میں خود انقلابیوں کے صفوں میں شامل ہوئے. اس وقت الجیریا پر فرانس کا تسلط تھا.
فینن نے اس چیز کا گہرا نفسیاتی جائزہ لیا کہ کہ نو آباد کاری سے مقامی باشندوں کے ذہن اور کردار پر کیا اثرات مرتب ہوتی ہیں، انکے ذہن اور کردار میں کیا تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور یہ امر انکی ذہنی اور جسمانی صحت پر کیا اثر ڈالتا ہے.
اس سلسلے میں فینن کی دو کتابیں بہت مشہور ہوئیں: “Black Skin White Mask” یعنی کالی چمڑی گورا نقاب، اور دوسری کتاب ” Wretched of the Earth” تھا جسکا “افتاد گان خاک” کے نام سے اردو ترجمہ ہوا ہے. انکے علاوہ “سامراج کی موت” میں فینن نے بہت سے نفسیاتی پہلوؤں کی وضاحت کی ہے.
فینن کا خیال ہے کہ اپنے ملک پر کسی غیر ملکی قبضے کے بعد ملکی افراد کی نفسیات میں کچھ مخصوص تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں. مثلاً قبضہ کرنے والے اپنے آپ کو اعلٰی و ارفع قرار دیتے ہیں، جبکہ مسلط شدہ ملک کے لوگوں کو جاہل، وحشی، جنگلی اور غیر مہذب قرار دیا جاتا ہے. غیر ملکی آقا جھوٹی تحقیق کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں کہ مقامی باشندے کمتر ہیں، انکو مخصوص قسم کی بیماریاں لگتی ہیں، انکے دماغ اور جسم کی بناوٹ مختلف اور کمتر ہے. انکی نہ کوئی تہذیب ہے نہ کوئی کلچر، نہ آرٹ، نہ ادب نہ ثقافت اور نہ ہی کوئی تاریخ.
لہٰذا قابض قوتوں کا یہی کوشش رہتا ہے کہ ان تمام لوگوں کو دبایا جائے جو اپنے لوگوں کو ان غلط فہمیوں سے دور رکھنے کی جہد کرتے ہیں، جو ریاست نے ان پر مسلط کی ہیں. ریاست کی یہی کوشش رہتی ہے تخلیقی لوگوں، ادیبوں، شاعروں، مفکروں، آرٹسٹوں اور ہر اس شخص کو دیوار سے لگا کر انکو مسلسل احساس کمتری میں مبتلا کرے جن کے بارے میں زرّا برابر بھی خدشہ ہو کہ وہ ریاست کی مسلط کردہ سوچ کے بر خلاف آگاہی کا پیغام دے اور ایسے لوگوں کو ہر قسم کے مواقع سے جان بوجھ کر دور رکھے. ریاست کی پوری قوت کے ساتھ یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ لوگوں کو انکی زبان، تاریخ اور ثقافت سے ناآشنا کرے.
یہ ہماری بدبختی ہے کہ ہم ایک نوآبادیاتی قوت سے نکل کر دوسرے کے ہاتھ میں آ گئے اور اس نئی قوت کو ہماری ثقافتی استحصال کے لیے بنی بنائی مواد بھی ہاتھ آگیا. ان کو انگریزوں کی تیار کردہ ہماری مسخ شدہ تاریخ تحفے میں مل گئی. اور آج تک اسی تاریخ کو دہرایا جاتا ہے کہ بلوچ باہر سے آئے ہوئے آباد کار ہیں، کبھی قیاس کر کے ہمیں عرب نسل سے جوڑتے ہیں اور کبھی ہمیں مشرق وسطیٰ سے آئے ہوئے اجنبی دکھا کر ہمیں الجھن میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں. جبکہ حقیقی تاریخ کو سامنے لانے سے خوف زدہ ہوتے ہیں.
میرے نزدیک بلوچ تاریخ کا مختصر جامع اور سائنسی مقدمہ فاروق بلوچ نے “بلوچ اور انکا وطن” کے نام سے مرتب کی ہے. جس میں انہوں نے تمام تر قیاس آرائیوں کو تاریخی دلائل سے رد کرکے شفاف بلوچ تاریخ مرتب کی اور اس بات پہ روشنی ڈالی کہ بلوچ باہر سے آنے والی نسل نہیں بلکہ ہزاروں سالوں سے اپنی سرزمین کا مالک ہیں اور اس خطہ زمین پر مختلف زبان کے لوگوں کا مثبت مفاہمت اور اشتراک ہوتا چلا آرہا ہے اور وہ ایک ہی قوم ہیں. فاروق بلوچ نے ریاست کے اس بیانیے کو مضحکہ خیز ثابت کیا کہ محض زبان کی بنیاد پر بلوچ اور براہوئی دو الگ قوم کہلائے جائیں.
یہ تمام چیزیں غیر ملکی آقا مقامی لوگوں پر مسلط کرتے ہیں اور مقامی لوگ جو آباد کار آقاوں کی تہذیب، رکھ رکھاو، آرٹ، کلچر اور تاریخ کا تصور اپنا لیتے ہیں وہ اچھے، پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ لوگ گردانے جاتے ہیں اور جو لوگ مقامی اقدار اور تاریخ کے تصورات اپنائے رکھتے ہیں، وہ گھٹیا اور ذہنی پسماندہ ٹہرائے جاتے ہیں. اور یہاں یہ المیہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ سندھ کے-پی-کے اور گلگت بلتستان کا بھی ہے.
اسکے علاوہ غیر ملکی آقا مقامی لوگوں کو اپنے خیالات و تصورات اپنانے کے لیے مائل کرنے کی خاطر شدید تشدد کا طریقہ اختیار کرتے ہیں. فینن کے نزدیک ان وجوہات کی بنا پر مقامی لوگوں میں تشدد کی نفسیات زور پکڑتی ہے اور وہ ہر مسئلے کو تشدد کے زریعے حل اور طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں. لیکن انکا یہ تشدد اصل مسئلہ پیدا کرنے والے کی طرف، یعنی غیر ملکی حکمران کے خلاف نہیں نکلتا بلکہ وہ آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں. فینن کی یہ نفسیاتی وضاحت شاید اس دور کے معروضی حالات کی طرف عکاسی کرتی ہو یا شاید اس میں بلوچستان کے متعلق بھی نفسیاتی بنا پر کسی حد تک موافقت ہو مگر یہ وضاحت بلوچستان کے مجموعی حالات سے میل نہیں کھاتا. اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مقابلہ ہی ایسی قوت کے ساتھ ہے کہ ہم مجبور ہوئے ہیں کہ اس سے بندوق کے زریعے مزاحمت کریں. بلوچستان کے معاملے میں حقائق ثقافتی اور تاریخی استحصال سے ماورا ہو کر ایک شعوری اور حقیقی سیاسی مزاحمت کی صورت اختیار کر چکی ہے. اور اسکی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ قابض قوت کی طرف سے جمہوری اقدار کے سارے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں.
فینن کا خیال ہے کہ دانشور طبقہ اپنی عوام کو اس امر کا احساس دلاتا ہے کہ دراصل عوام پر جابر حکمران بزور قوت قابض ہیں اور قابض قوت ہی انکی اقدار، مذہب، روایات، تقافت، زبان اور تاریخ کو مسخ کرتے ہیں. لہٰذا عوام کی مزاحمت کا اصل ہدف قابض قوت اور اسکو تقویت دینے والے عناصر ہونی چاہئیں.
فینن کے نزدیک قابض قوت کی جبر و تشدد سے پیدا ہونے والی ذہنی و نفسیاتی الجھنیں یا بیماریاں اپنی اقدار، تاریخ، اور ثقافت سے بیگانگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور انکا علاج کسی نفسیاتی ہسپتال یا کسی نفسیاتی کے ماہر شخص کے پاس نہیں ہو سکتا. کیونکہ انکو پیدا کرنے عوامل تو ملکی حکمرانوں کے اعمال اور رویہ ہیں. چنانچہ فینن کے نزدیک اس صورت میں نفسیاتی الجھنوں اور بیماریوں سے دور رہنے کے لیے سب سے بہتر اور موثر طریقہ یہ ہے کہ لوگ قابض، اور جابر قوت کے خلاف کسی مزاحمتی تنظیم میں شامل ہو کر مسلح جدوجہد میں حصہ لیں. کیونکہ بقول فنان انقلابی جدوجہد ہی بہترین علاج ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔