نظریاتی ڈیتھ اسکواڈ – برزکوہی

1248

نظریاتی ڈیتھ اسکواڈ

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

موجودہ تحریک کے ابتداء سے ریاست اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کے باوجود مسلح مزاحمت کو ختم کرنے سے قاصر رہا ہے، دشمن اپنی بے پناہ طاقت کے استعمال کے بعد مزاحمت کو وقتی طور پر کمزور یا منتشر ضرور کرسکا لیکن مزاحمت پھر کہیں سے سراٹھا کر پلٹ کر وار کرتی رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف دشمن غیر مسلح آزادی پسند سیاسی کارکنوں کے بابت ایک واضح پالیسی رکھتی ہےکہ انہیں کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں ملے اور انکا مکمل صفایا کیا جائے۔ غیر مسلح ہونے اور سرفیس پر ظاہر رہنے کی وجہ سے ایسے سیاسی کارکن ریاست کا آسان نشانہ بھی بنے اور دشمن نے بھی انسانی یا سیاسی حقوق کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑا، محض شک کے بنیاد پر بھی سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو شہید و اغواء کیا گیا۔ بچے ہوئے کارکن عوام سے کٹ کر زیر زمین چلے گئے یا پھر بیرون ممالک پناہ کیلئے نکل گئے۔ اس سارے عمل نے بلوچستان کے سیاسی میدان میں ایک گہری خلاء پیدا کردی۔ اس خلاء کے باوجود بلوچستان میں ترقی پسند سیاست اور قوم پرستی کی جڑیں انتہائی مضبوط ہیں، اسلیئے پھر بھی دگرگوں حالات کے باوجود بلوچستان کی آواز زیر زمین قوم پرست جماعتیں رہیں یا پھر مسلح مزاحمتی تنظیمیں۔

دشمن قوم اور تحریک کے تعلق کو توڑنا چاہتا تھا، اسلیئے سرفیس پر پیدا سیاسی خلاء کو پہلے پہل جماعت الدعوت وغیرہ جیسے مذہبی اور وفاقی جماعتوں سے پر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ درآمد کردہ نظریات بلوچ سیاسی روح میں نہیں اتر سکےاور اپنی موت آپ مرگئے۔ اسکے بعد وفاق پرست قوم پرست جماعتوں کو اس خلاء کو پر کرنے کیلئے کھلی چھوٹ دی گئی، پہلے نیشنل پارٹی پھر بی این پی کو باریاں دی گئیں لیکن یہ ریاستی چالیں اتنی واضح تھیں کہ ہر بلوچ بخوبی دیکھ اور سمجھ سکتا تھا کہ انہیں پارلیمانوں میں چنتا کون ہے، اور وہ کس کی زبان بولتے ہیں۔ ان کے بارے میں نرم ترین رائے رکھنے والا بھی ان کی سیاست کو مصلحت قراردیتے ہیں اور مصلحت کبھی سیاست نہیں بن سکتی، سو کبھی اس خلاء کو پر نہیں کرسکتی۔ گو یہ دوسری کوشش بھی اتنی بارآور ثابت نہیں ہوئی کہ وہ اس سیاسی خلاء کو پر کرکے تحریک اور عوام کا رابطہ و تعلق ختم کردیں۔

اب اس تسلسل کی تیسری لہر زیادہ مخفی و مبہم انداز میں روبہ عمل ہے، انہیں فرق کرکے سمجھنا اور پرکھ کر الگ کرنا تھوڑا مشکل ہے۔ ماضی کے برعکس یہ براہ راست ریاست کے حامی نہیں، یہ بندوق اٹھائے ڈیتھ اسکواڈ بھی نہیں، یہ رجعت پسند بھی نہیں دِکھتے، یہ ردِ انقلابی نعرے بھی نہیں لگاتے۔ یہ وہ عوامل تھے جو بلوچ سیاسی و سماجی کلچر کے ترقی پسندانہ و قوم پرست رویوں سے متصادم تھے، اس لیئے ان درآمد کردہ نظریات و افراد کی پہچان فوراً ہوجاتی اور وقت کے ساتھ یہ مسترد بھی ہوجاتے۔ لیکن تیسری لہر میں مقصد بلوچ تحریک کے نظریاتی اساس پر حملہ ہے، یہ ریاست کے نظریاتی ڈیتھ اسکواڈ ہیں۔ یہ بظاہر ترقی پسند، حکومت مخالف، فیمینسٹ، سیکیولر، سوشلسٹ کے روپ میں ہیں۔ یہ ریاستی پالیسیوں اور فوج پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ اسلیئے آپ انہیں اپنے جیسا ترقی پسند تصور کرتے ہیں اور ہمدرد جانتے ہیں۔ صرف یہاں تک نہیں بلکہ ان میں بالکل آپ جیسے بھی ہیں۔ کوئی تیس سال بعد سرکاری مراعات سے لطف اٹھانے کے بعد اچانک نمودار ہورہا ہے، بی ایس او کے سابقہ چیئرمینوں کو مردے گڑھوں سے کھود کر واپس نکالا جارہا ہے۔ کسی کو اچانک پارٹی بنانے کا خیال آگیا ہے اور کسی کو لکھنے لکھانے کا۔ لیکن ان سب کا وقت نزول، بیانیہ اور طریقہ کار ایک ہی جانب اشارہ کررہا ہے کہ یہ بظاہر سرخے و سبزے، دائیں و بائیں، سابقہ و موجودہ ہیں لیکن بلواستہ یا بلاواستہ سب ایک بڑے ریاستی منصوبے کا ایک ہی حصہ ہیں۔ انکی صورت میں جعلی کارکنوں اور “سیوڈو انٹلیکچولز” کی ایک ایسی نئی شکل تیار کی جارہی ہے، جو اس حد تک ریاست مخالف ہو کہ فوج اور اشرافیہ کے لیئے بے خطر اور قابل قبول ہو اور ساتھ میں انکے جعلی ریاست مخالف بیانیئے میں بلوچ عوام خاص طور پر بلوچ نوجوان اپنے دبے ہوئے آواز کا اظہار پائیں تاکہ آزادی پسندوں کی جانب متوجہ ہونے کے بجائے انکی جانب متوجہ رہ کر تحریک اور مزاحمت سے کٹ جائیں۔

قصہ یہاں تک تمام نہیں ہوتا، یہ طبقہ جن جن سرکلوں میں تھوڑا بہت اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اب دوسرے مرحلے میں وہاں بین السطور اور کبھی کبھی کھلم کھلا بلوچ قومی مزاحمتی تحریک پر نظریاتی حملے بھی کررہے ہیں تاکہ لوگوں کو بدظن کیا جاسکے۔

بلوچ عوام عملی طور پر حصہ ہیں یا نہیں ہیں، زبان سے ظاہر کرتے ہیں یا خوف سے چپ ہیں لیکن بلوچوں کی بھاری اکثریت بلوچ آزای پر یقین رکھتی ہے، اور اس آزادی کیلئے لڑنے والوں کو اپنا ہیرو و نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ قربان ہونے والوں کو اپنا شہید گردانتے ہیں، وہ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اب اسی تناظر میں ریاست کے ان کیموفلاج نظریاتی ڈیتھ اسکواڈوں کا بیانیہ دیکھیں تو وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ اول آزادی کی تحریک کو ہی متنازعہ بنائیں، پھر تحریک چلانے والے تنظیموں کے بارے میں شبہات پیدا کریں اور بالآخر شہادت کے قومی جذبے کو ماند کرنے کیلئے اسے ” ڈی گلوری فائی” کریں۔

اسی تناظر میں محض چند مثالیں دونگا، یعنی بلوچوں کی ترقی پسند قوم پرستی فسطائیت ہے، کیونکہ اس میں مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس بیانیئے میں جان بوجھ کر اس سیاق و سباق کو کاٹا جاتا ہے کہ جن بھی “مزدوروں” کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ باقاعدہ نیم فوجی دستوں کے بھرتی سپاہی ہیں، جن سے مزدوری کا کام لیا جاتا ہے، اور وہ ایسے سامراجی استحصالی منصوبے پر کام کررہے ہیں، جسکے تکمیل کیلئے فوجی آپریشن کرکے پوری بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا گیا ہے، آبادیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے، اور اس منصوبے کے تکمیل کا مطلب ایک پورے قوم کا ابدی فناء ہے۔ اسکے باوجود انہیں درجنوں بار وارننگ دی گئی ہے، کئی بار کرایہ دیکر واپس بھیجا گیا ہے۔ پھر بالآخر انہیں نشانہ بنانے کا محرک انکی قومیت نہیں بلکہ ہٹ دھرمی سے سامراجی استحصالی مشنری کو تقویت پہنچانے کی جتن ہے۔ لیکن جان بوجھ کر اس سارے تناظر کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور اس امر کو بھی نظرانداز کیا جاتا ہے کہ تحریک کا تشدد ریاستی تشدد کا جواب ہے۔

اسی طرح تحریک کے سیاسی جماعتوں کو پہلے محدود گروہ اسلیئے کہا جاتا ہے کہ وہ سرفیس پر نظر نہیں آتے، یہاں انتہائی بدنیتی سے اس پورے ریاستی تشدد کو پسِ پشت ڈالا جاتا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں کس طرح ان جماعتوں کے کارکنوں و لیڈروں کو ریاست نے شہید کردیا، جس کی وجہ سے مجبوراً انہیں محدود ہوکر کام کرنا پڑرہا ہے، پھر ایک ہی سانس میں اپنی ہی تردید کرتے ہوئے ان جماعتوں کے شہادتوں کو غلط حکمت عملی قرار دیا جاتا ہے، جب ان کے کارکن محدودیت سے نکلنے کی کوشش میں شہید ہوئے۔ یہاں مقصد صرف جماعتوں کو متنازعہ کرنا نہیں بلکہ شہادتوں کو بھی متنازعہ کرنا ہوتا ہے۔ بلوچوں کی سب سے بڑی قوت یہ ہے کہ اس کے پیر و ورنا اپنے نظریئے و وطن سے محبت کی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے سے نہیں کتراتے، لیکن یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ قربانی کے اس جذبے کو ایسا ظاہر کریں کہ یہ شہید خود شہادت کیلئے تیار نہیں تھے بلکہ یہ تو غلط حکمت عملی کی وجہ سے مارے گئے۔

تحریک میں ضرور خامیاں ہونگی، کمیاں اور کوتاہیاں بھی سرزد ہوتی ہیں، لیکن یہی تحریک ہی بلوچوں کا مستقبل ہے، انکی بقاء ہے اور حقیقی سیاسی آواز ہے۔ اسکی کمی کوتاہیوں کو درست کرنے پر ضرور بات کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ تحریک قوم کی امانت ہے لیکن جب اسکے نظریاتی اساس پر تنقید کی صورت میں حملہ کیا جائے تو اسکا مطلب واضح ہے کہ مراد بہتری نہیں بلکہ سبوتاژ ہے۔

شہید میر محراب خان سے لیکر آج تک بلوچ مزاحمت کا اگر آپ باریک بینی، غیرجانبداری اور حقائق کے بنیاد پر تجزیہ کریں تو بالکل شہید محراب خان سے شروع ہونے والی تحریک مختلف ادوار میں مختلف شکل و صورت میں مزاحمت اور مزاحتمی تحریک ضرور بلوچ قومی آزادی کی جنگ کے بنیادی اینٹیں تھیں، اس حقیقت سے انکار جاہلیت کے سوا کچھ نہیں، مگر بلوچ کی مزاحمت کے ماضی کے تسلسل کو گر آپ حال سے جوڑ کر دیکھیں تو آپ بلاجھجھک یہ کہہ سکتے ہیں کہ بلوچوں کی مزاحمتی تحریک اپنے اصل شکل میں ابھی شروع ہوا ہے۔ کوئی بھی اختلاف رکھ سکتا ہے، ضرور بحث بھی کرسکتا ہے، دلیل دے سکتا ہے اور دلیل لے سکتا ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ جنگ کا تسلسل اور طوالت خود ماضی کی جنگوں اور مزاحمت سے منفرد حیثیت رکھتا ہے، دوسری وجہ اس جنگ کی لامحدودیت ہے یعنی اس تحریک کا پورے بلوچستان کے طول و عرض میں پھیل جانا ہے۔ تیسری وجہ موجودہ تحریک کا کسی مخصوص طبقے، علاقے یا قبیلے کے بجائے پوری بلوچ قوم کو مثاثر کرنا ہے، ایک بڑی حد تک موجودہ جنگ بھٹکے ہوئے گروہوں و طبقوں کے بجائے تنظیموں کی شکل میں تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔

گر میں اس امر سے انکار کروں کہ بلوچ قوم کی موجودہ تحریک میں بالکل کوئی خامی و کمزوری نہیں ہے اور بحیثیت ایک جہدکار میرے کسی کمزوری و خامی کا اس تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑا ہوگا تو پھر مجھ سے بڑا جھوٹا اور منافق کوئی نہیں ہوگا۔ جنگ ایک اعصاب شکن جاری عمل ہوتا ہے، اور جب عمل ہوتا ہے تو غلطیاں ضرور سرزد ہوتی ہیں۔ غلطی عمل کا ماخذ ہے، جمود کا نہیں۔ آپ کچھ نا کریں تو غلطی بھی کوئی سرزد نہیں ہوگی۔ ہم تحریکی کمزوریوں اور اپنی کمزوریوں سے ہرگز انکار نہیں کرتے ہیں، خود کو کبھی مبرا نہیں سمجھتے ہیں، اپنے کردار و عمل پر سخت تنقیدی جائزہ بھی لیتے ہیں، ان غلطیوں کو سدھارے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کبھی خود تحریک سے منحرف اور بیگانہ ہوکر آرام و سکون کی زندگی اپنا کر تمام تحریکی و مزاحمتی کمزوریوں کا بوجھ کسی دوسرے کے سر پر بھی نہیں ڈالتے۔

خود کی کمزوریوں، تحریک کی کمزوریوں، اس جاری عمل سے پیدا ہونے والے مسئلوں اور کمزوریوں سے نمٹنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ آپ خود اس تحریک کا حصہ بن کر، ان کمزوری اور خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کریں، پھر آپ انہیں ختم نہیں بھی کرپائے تو کم ضرور کرسکتے ہیں۔ اسی فلسفے پر مستقل مزاجی، یقین اور امید کے ساتھ قائم رہنا بہتر ہے بجائے تحریک سے راہ فراریت و بیگانگی اختیار کرکے اور منحرف ہوکر خود آرام و سکون اور محفوظ زندگی گذارتے ہوئے قومی جنگ کی طرف انگلی اٹھاؤ اور کہو کہ فلانہ چیز آپکے طبیعت سے میل نہیں کھاتی۔

میں یہ نہیں کہتا کہ اگر کوئی بلوچ اس جاری تحریک اور جنگ کا حصہ نہیں تو پھر اسے تنقید یا اصلاح کیلئے نشاندہی کا حق حاصل نہیں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگ سے دور و بیگانہ ہوکر کس حد تک جنگ کی خامیوں، تقاضات، حقائق اور رنگ و صورت سے واقفیت حاصل ہوسکتی ہے؟ اور جب تک جنگ کی مکمل حقیقتِ حال، تقاضوں، قوت و کمزوریوں سے آگاہی نا ہو تو پھر کیئے ہوئے تنقید کو کس حد تک سنجیدہ لیا جاسکتا ہے؟ آپکو لگتا ہے کہ تحریک میں غلطیاں ہیں اور آپ ان غلطیوں کو سب سے بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں، اور بہتر طریقے سے اس تحریک کو دشمن کے خلاف استوار کرکے قوم کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہیں، پھر آپ کو ایک پل بھی ضائع کیئے بغیر تحریک کا حصہ بن کر کام شروع کردینا چاہیئے کیونکہ پھر یہ آپکا قومی فرض بن چکا ہے کہ آپ اپنی ذہانت و صلاحیت قوم و تحریک کیلئے بروئے کار لائیں، لیکن آپکو لگتا ہے تحریک میں کمزوریاں ہیں اسلیئے، آپ محض ڈرائینگ روم سرکلوں میں ان پر دھواں دار تقریر و تحریر پر اکتفاء کریں گے اور ان کمزوریوں کی وجہ سے بس تحریک کو بس ہونا چاہیئے تو پھر جناب آپکے نیت اور آپکے تنقید و نکتہ چینی پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ اسی سوالیہ نشان کے نیچے پاکستانی درآمد کردہ مذہبی جماعتیں، پارلیمانی قوم پرست دب کر بے اثر ہوگئے، ان نظریاتی ڈیتھ اسکواڈوں کی تیسری لہر بھی نہیں بچ پائے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔