موم بتی مافیا کہاں ہے؟
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
انسان کی بُری دردشا کے خلاف اُٹھائے احتجاج کے اندر ہی چھپی صدا انقلاب کی صدا ہو تی ہے۔ اس صدا میں انقلاب کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ اس انقلاب میں فن اور خدا کے خلاف بھی بغاوتی انقلاب چھپا ہوتا ہے۔ انقلاب ہمیشہ خدا یا دیوتاؤں کے خلاف آتا رہا ہے۔ جیسا کہ پرو میتھیس انقلاب کا لازوال آدرش۔
دراصل وہ انسانوں کا مقدر کے خلاف احتجاج ہوتا ہے۔ تانا شاہ ڈکٹیٹر یا سرمایہ دار صرف کٹ پتلیاں اور بہانے ہو تے ہیں۔ انقلاب کی روح یا اس کے جوہر کوتاریخی صورتوں میں بھی ناپا جاسکتا ہے۔ پر اس لیے مارکس کے جذبے کی اشد ضرورت محسوس ہو گی جب کہ ان انقلاب کو بس اندر کی خواہشوں سے ناپنے سے منع کیا گیا ہے، روکا گیا ہے۔ انقلاب کو انقلاب کے جو ہر سے ہی ناپا جا سکتا ہے۔
اس نقطہ نظر سے کوئی بھی فنکار یا فنی شاہکار جو خوشی اور خوشحالی کا پیغام سنائے یا لائے تو اسے بھی انقلاب کا پیغام قرار دے سکتے ہیں۔
پھر وہ جو پہاڑوں کی اُوٹ میں وطن کی دھرتی کے نظر ہوئے ان کی شہادت بھی غلام وطن کی دھرتی کے لیے خوشی اور راحت کا پیغام لائی ہے وہ بھی انقلاب ہے۔
ایک کہاوت کے مطابق، عورت کا منہ، جوان لڑکی کی چھاتیاں، معصوم بچے کی پراتھنا، اور مٹی کے برتن سے لوبان کی اُٹھتے دھونے کی خوشبو یہ ہمیشہ پوتر کہلاتے ہیں پر یہ انقلابی بھی ہو تے ہیں۔
اسی طرح اگر کوئی عام انسان اپنے عام پن سے اُٹھ کر بہت اونچا ہوجائے، وہ کچھ ایسا کر بیٹھے کہ است عزت نصیب ہو اور وہ عام خلق سے خاص میں بدل جائے تو وہ بھی انقلابی کہلاتا ہے۔
تو وہ بھی انقلابی ہی تھے جنہیں کل ریاستی گاڑیاں اپنے پیچھے ایسے باندھے پھر رہی تھی جس کے لیے بھا رت میں ارون دھتی رائے جب چیختی ہے، جب کسی کشمیری کو بھارتی ریاستی غنڈے اپنی گاڑیوں کے سامنے باندھے پلوامہ کی گلیوں میں گھما تے ہیں۔ تو ارون دھتی رائے چیخ پڑتی ہے۔
ایسا ہی حشر یہ ریاست ان انقلابیوں کے ساتھ کر رہی ہے، جو گولیاں کھا کر شہید ہو جانے کے بعد بلوچستان کی پتھریلی زمین پر اپنے پیروں کو زخمی کر کے گاڑیوں سے گھسیٹے جا رہے ہیں، پر ان کے لیے کوئی ارون دھتی رائے کیا پر کوئی ماروی سرمد بھی نہیں چیخ رہی، بھا رت میں انقلابیوں کو زندہ گاڑیوں کے آگے باندھا جاتا ہے اور یہاں شہید کرکے گاڑیوں کے پیچھے ایسے باندھا جاتا ہے جیسے کوئی رسی سے دوسری گاڑی کو کھینچ رہاہو۔ کشمیر میں انقلابی زندہ ہوتے ہیں اور گاڑی کے سامنے باندھے جاتے ہیں اور ادھر یہ مارکر ایسے باندھے جاتے ہیں، آدھی گاڑی میں آدھا گاڑی سے باہر، جب انسانی حقوق کے چیمپن ادارے اندھے بہرے اور گونگے ہو جا تے ہیں۔
کوئی ماروی سرمد، کوئی حنا جیلانی، کوئی جلیلہ حیدر روڈوں پر نکل کر ایسی صدا نہیں لگاتی کہ
انہیں عزت سے دفنادو
اگر ایسے ظلم کے دوروں میں کوئی کہیں سے کیسی بھی صدا بلند ہو تو وہ بھی انقلاب ہی ہوتا
پر ایسا کچھ نہیں ہوا، ایسی صدا کہیں سے بلند نہیں ہوئی، انقلاب پر سوچتے مجھے بادلئیر یاد آ رہا ہے۔
جس نے انسانی حقوق کے چارٹر کو دیکھ کر کہا تھا کہ
،،اس کے اندر دو انسانی حقوق درج کرنا رہ گئے ہیں
ایک اپنی ذات کی تردید کرنا
دوسرا سنسار چھوڑنے کا حق۔
انقلاب یہ نہیں کہ کوئی بھی اُٹھے اور فیس بک پر کوئی پوسٹ لکھ کر پوسٹ کر دے پر انقلاب یہ ہے کہ وہ جینا چاہتا ہے تو وہ دوسروں کے جینے کے لیے بھی آواز بلند کرے۔ انقلاب ساتھ چلنا،جینا، ایک دوسرے کو برداشت کرنا بھی ہوتا ہے۔
قدیم کورنت شہر میں دو عبادت گاہیں ایک دو سرے کے ساتھ جُڑی کھڑی تھیں ایک میں تشدد کا مندر تھا اور دوسرے میں اہنسا کا پیغام رواداری برداشت کا پیغام دیا جا رہا تھا وہ بھی انقلابی کیفیت تھی۔
کہیں پڑھا تھا کہ روینا شہر کے باسی مقدس ALTERکی قبر سے جلتی موم بتیاں لے آئے اور شاعر دانتے کی قبر کو روشن کرنے لگے اور کہنے لگے
،،اے شاعر
تم کسی مصلوب ہوتے انسان سے بہت عظیم ہو
کیوںکہ تم شاعر ہو
اور تمہا رے الفاظ انقلاب کا سبق دیتے ہیں،،
یہ بھی انقلاب کی طرف پیش قدمی تھی۔
گھپ اندھیرے میں کہیں دور سے کوئی روشنی کا کرن بھی تو انقلاب کی طرف پیش قدمی ہی ہے، پھر آہستگی ہی سے صحیح۔
موت دے ڈر نے کا عنصر یا بدلے کی خصیص آگ انسان کو انسان ہی نہیں رہنے دیتی یہاں میں یہ ہر گز نہیں لکھوں گا کہ وہ انسان سے بدل کر حیوان ہوجاتا ہے، ٹھیک ہے اگر وہ انسان، نہیں تو حیوان بن جاتا ہے، تو پھر مجھے آپ یہ بھی بتائیں کہ کون سا جانور کسی دوسرے جانور کو اپنے پیروں سے باندھ کر پہاڑوں کے درمیاں گھسیٹتا رہتا ہے؟ کون سا جانور کسی دوسرے جانور کو اپنی سونڈھ سے باندھے میدانوں میں گھسیٹتا رہتا ہے؟ کون سا جانور اسے ایسی ہتک عزت سے پیش آتا ہے کہ اسے دیکھ کر بھارت میں ارون دھتی رائے چیخ پڑے اور پاکستان کی موم بتی میمیں اور مافیاں ڈر کر خاموش رہیں یا کسی مصلحت کا شکار ہوکر،سانوں کی،، کی طرح یہ جانے ہی نہ کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟
پر ان سرمچاروں کی ننگی لاشیں اور ان ننگی لاشوں کا یوں پہاڑوں کے درمیان گھسیٹنا ایک نئے انقلاب کی ہکل ہے
اس لیے کوئی یہ نہ جانے کہ ان سرمچاروں کی ننگی لاشوں کا گاڑیوں سے بندھ کر پہاڑوں کے درمیان اپنے گھسیٹے پیروں سے لکیروں کا کھیچنا کوئی معنیٰ ہی نہیں رکھتا۔ پر وہ شہیدوں کے بے جان پیروں سے پہاڑوں کے درمیان جو لکیریں بن رہی ہیں، وہ نئی سحر کی لکیریں ہیں، نئی اُمید کی لکیریں ہیں، نئے دن کی لکیریں ہیں اور یہ بتانے کی لکیریں ہیں کہ کراچی، اسلام آباد، اور لاہور میں بسنے والی میموں کے لیے وہاں کے انسانی حقوق کا چارٹر کوئی اور ہے اور یہاں بلوچستان اور بلوچ دھرتی پر بسنے والوں کے لیے انسانی حقوق کا چارٹر کچھ اور ہیں۔ یہ لکیریں اس موم بتی مافیا کو بھی بے نقاب کرگئے ہیں، جو بہت بے شرم ہیں، جو سب کچھ دیکھ رہا ہے، پر بندوق اور گولی کے خوف نے اسے اندھا کر دیا ہے۔
بلوچستان دھرتی کے شہیدوں کو کسی موم بتی مافیا، کسی انسانی حقوق کے ٹھگ کی کوئی ضرور ت نہیں
نہ کسی احتجاج کی نہ کسی پرو پیگینڈے کی
نہ کسی دھرنے کی نہ کسی دھمکی کی
وہ آپ ہی انقلاب ہیں اور آپ ہی پیغام
وہ آپ ہی پنہوں ہیں اور آپ ہی سسی
اور یہ اس پیغام کی لکیریں ہیں، جو ہمیں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ
،،ان پہاڑوں میں سحر بھی تمہاری ہو گی اور شام بھی تمہا ری
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔