مزاحمت بلوچستان کی روایت ہے – اسد بلوچ

780

مزاحمت بلوچستان کی روایت ہے

تحریر: اسد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان جہاں انسانی حقوق کی پامالی، جبر، زیادتی اور زباں بندی کو اب کئی سال ہونے کو ہیں، ایک معمول کے واقعے پہ پھٹ پڑا ہے۔ ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت سے محض 12 کلو میٹر مغرب میں واقع گاؤں ڈنک ( ڈنک کو غلطی سے ڈھنک، ڈہنک، ڈننک وغیرہ لکھا جارہا ہے) میں عید کی دوسری رات ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جو اب یہاں عموماً ہوتے ہیں، مگر برسوں سے جاری گھٹن اور زباں بندی کو گویا کتھارسس چاہیئے تھا سو اس واقعہ کو بنیاد بنا کر بلوچستان اپنی روایتی مزاحمت پر اتر آیا۔

ڈنُّک واقعے میں ریاست کی سرپرستی میں ایک مسلح جتھے کے جرائم پیشہ لوگوں نے ایک گھر میں گھس کر ڈکیتی کی کوشش کی، جہاں پہ بی بی بانڑی کی قبیل سے تعلق رکھنے والی ملک ناز نامی عورت مزاحمت کرتے ہوئے خود شھید ہوئیں مگر ریاست کے چہرے پر لگی نقاب کو اتار دیا کیا۔

اس کے بعد جو تحریک منظم ہوئی وہ بظاہر اس سانحہ میں زخمی ہونے والی چار سالہ برمش کو انصاف دلانے کے لیے ہے لیکن اصل میں یہ بلوچستان کی روایتی مزاحمت کا تسلسل ہے جو ہمیشہ درمیانی وقفوں کے ساتھ ابھرتی رہتی ہے۔
ڈنُّک کے سانحہ میں لوگوں نے ہمت کر کے موقع سے ایک ڈاکو پکڑ لیا اس کے بعد پولیس نے ان کے دو ساتھیوں کو واقعہ میں استعمال ہوئے اسلحہ، گاڈی اور ایک موٹر سائیکل پکڑ لیا ہے۔ اس واقعے میں گرفتار ڈکیتوں نے نا صرف خود کو سیکیورٹی فورس کا بطور سورس ظاہر کیا بلکہ باقاعدہ اپنے جرائم پیشہ گروہ اور اپنے سرغنہ کا نام بھی دیا، بلوچستان میں سورس کے نام پہ ریاست کے لے پالک درجنوں مسلح گروہ ہیں جن کو جرائم کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں اور تربت میں ان گروہوں نےڈکیتی اور لوٹ مار کی وارداتیں کی ہیں۔

برمش جو ایک منفرد بلوچی نام ہے جس کا بلوچی میں مطلب ہے آھٹ یا وہ روشنی جو بہت دور سے نظر آئے اور اکثر گمشدہ لوگوں کو راستے کا پتہ دے، گویا برمش کی برمش پورے بلوچستان میں سنائی اور دکھائی دے رہی ہے۔ ہوسکتا ہے برمش کے والدین اپنی بچی کا نام رکھتے ہوئے ایسا کچھ نہیں سوچ رہے تھے لیکن قدرت اور فطرت بعض اوقات حالات کو واقعات سے جوڑتی ہے برمش کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، اپنی نام کے ساتھ فطرت نے اسے گھٹن زدہ بلوچ سماج کے لیے برمش بنادیا۔

برمش کے نام پہ پورے بلوچستان،کراچی اور اب لاہور میں احتجاج کا اعلان ہوا ہے، احتجاج کا سلسلہ ساحلی شھر گوادر سے شروع ہوا جو پھیلتا ہوا ہر اس جگہ پہنچا جہاں کبھی بلوچستان کے اہم مسائل پہ بھی سکوت چھایا رہتا ہے۔

دراصل برمش کو انصاف فراہمی کے لیے عوام کی طرف سے جاری شدید احتجاج ایک واقعہ سے نتھی نہیں بلکہ ایک دہائی سے بزور طاقت بلوچ آواز کو دبا کر اپنی رٹ قائم کرنے کے نام پہ ریاستی جبر اور زبان بندی کے خلاف بلوچستان کی مزاحمت کا تسلسل ہے۔ پورے بلوچستان میں اب تک جو سب سے منظم احتجاج ریکارڈ کیا گیا وہ تربت میں نظر آیا، جہاں سوشل میڈیا پہ دو دن کی مہم کے بعد شدید گرمی میں عورتیں، بچے اور مردوں کی بڑی تعداد گھروں سے نکل آئی، کئی سالوں سے کشمیری ریلیوں نے تربت کی سیاسی ماحول کو بے رنگ بنادیا تھا مگر ملک ناز کی مزاحمت نے شھید فدا چوک کو زندگی عطا کی، شھید فدا چوک کئی سال بعد سیاسی رنگ میں دکھائی دیا۔ کچھ برس پہلے جب سیکیورٹی فورس شھید غلام محمد کی گرفتاری کے لیئے اسی شھید فدا چوک پہ آئی تھی تو انہیں بلوچ عورتوں اور بچوں کی شدید مزاحمت کا سامنا تھا۔

گوکہ موجودہ احتجاجوں کا کوئی باقاعدہ سمت نہیں مگر اس کا محور بظاہر ڈنُّک کا واقعہ اور اس میں روایت سے ہٹ کر ایک خاتون کی شھادت اور اس کی چار سالہ بچی کو زخمی کیا جانا ہے۔ ان عوامی احتجاجوں میں سیاسی جماعتیں بھی شریک ہیں لیکن ان کا کردار قائدانہ نہیں بلکہ وہ ان کے حصے ہیں کیوں کہ تربت سمیت کسی مقام پہ سیاسی جماعتوں کی کال پہ عوام نہیں نکلے گوکہ تربت میں آل پارٹی نے احتجاج کا اعلان کیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریلی اور احتجاج آل پارٹی کے اعلان پہ نہیں ہوا کیوں کہ آل پارٹی محض پریس کلب کے سامنے ایک روایتی احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتی تھی، جس میں سیاسی رہنماؤں کو عوام کی شرکت پہ شک تھا۔

بلوچستان میں سیاسی جماعتیں جو پارلیمانی سیاست کررہی ہیں ان کا کردار مثالی نہیں ہے، ان جماعتوں میں درجنوں ایسے افراد ہیں جو منظم گروہوں اور مسلح جتھوں سے بلواسطہ یا بلا واسطہ تعلق رکھتی ہیں، جن کے زریعے بلوچ سماج کو خوف کا شکار کیا گیا ہے، سیاسی جماعتیں ان گروہوں کو اپنی پارلیمانی سیاست کے لیے کامیابی کا زریعہ سمجھ کر ان کے کردار پہ کبھی تذبذب کا شکار نہیں رہیں بلکہ ان کی زیادہ کوشش رہی ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں تاکہ پارلیمنٹ میں ان کے سیٹوں کی تعداد زیادہ ہو۔

آخری اور اہم بات یہ ہے کہ یہی سیاسی جماعتیں عوامی احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش نہ کریں کیوںکہ ان جماعتوں کا موقف محض سانحہ ڈنُّک میں ملوث ایک شخص کی گرفتاری ہے جو مبینہ طور پر بطور سرغنہ اس گروہ کو چلا رہا ہے۔ ایک دن قبل پولیس نے عوام کے دبائو پر اس شخص کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا ہے اور ہوسکتا ہے یہ ایک سازش ہو تاکہ عوامی جذبات کو اس گرفتاری سے ٹھنڈا کرکے ان درجنوں مسلح گروہوں کو تحفظ دیا جاسکے جن کے پاس سورس کے نام پر سماج میں خوف پھیلانے، لوگوں پہ تشدد،انسانی حقوق کی پامالی، لوٹ مار اور دوران ڈکیتی قتل کا اختیار ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ جبر کے خاتمے اور خوف کے شکار سماج کی آزادی کے لیے عوام کے ساتھ مل کر بلوچستان کی روایتی مزاحمت کو ایک منطقی انجام پہ پہنچائیں۔

سب کا آخری اور مشترکہ مؤقف تمام مسلح گروہوں کا مکمل خاتمہ اور ان کو دیا گیا اسلحہ واپس لینا ہونا چاہیے ورنہ ان گروہوں کی موجودگی میں سانحہ ڈنُّک سے بڑھ کر بڑے حادثات ہوتے رہیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کی پالیسیوں کا اظہار ہیں۔