غلامانہ سوچ اور وطن پرستی – زہرہ جہان

492

غلامانہ سوچ اور وطن پرستی

تحریر :  زہرہ جہان

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں عید بھی ایک بہت عجیب تہوار بن چکی ہے۔ ایک طرف آنسوؤں اور سسکیوں کی بارش آنگنوں میں تو دوسری طرف ڈھول کے تھاپ پر ناچ لوگوں کے گھروں میں. ایک طرف ماؤں اور بہنوں کی چیخ و پکار تو دوسری طرف موسیقی کی جھنکار۔ ایک طرف نوجوانوں کی بے گواہی اور بے گناہی تو دوسری طرف نوجوانوں کی بد مست شوخیوں والی زندگی. ایک طرف ماؤں, بہنوں کا احتجاج تو دوسری طرف گلیوں اور چوراہوں پر رنگینیاں۔ ایسا سماں جیسے ایک ہی بلوچستان میں دو اور بلوچستان ہوں.ایک پرخار تو دوسرا پربہار, ایک خوشگوار تو دوسرا سوگوار.

عید کے دن میرا بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ باہر گیا، واپسی پہ کچھ الجھن اور کچھ تذبذب کا شکار تھا. باہر جانے سے پہلے اور باہر جانے کے بعد اس کے چہرے کے تاثرات میں تبدیلی پر نے محسوس کرلیا. وجہ پوچھی تو پہلے اس نے انکار کیا لیکن میری زیادہ اسرار کرنے پر اس نے وجہ بتا دی.

بانک ہم لوگ کیسے عجیب معاشرے میں رہ رہے ہیں؟ ہم کتنے بے حس و بے ضمیر ہوگئے ہیں؟ ہمیں اپنے لوگوں کا درد کیوں درد نہیں بلکہ شعبدہ بازی اور مگر مچھ کے آنسو نظر آتے ہیں؟ آج جب میں باہر گیا ہوا تھا تو میری ملاقات دو پرانے دوستوں سے ہوا. جن میں سے ایک آرمی کے ٹیسٹ میں فیل ہوچکا ہے جب کے دوسرا ابھی کمیشنڈ آفیسر بھرتی ہوا ہے.

مجھے انکی ذاتی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ میں تو خوش ہوتا ہوں جب وہ یہاں پہ نہیں ہوتے کیونکہ ان کی موجودگی میری ذہنی سکون پہ ایک بوجھ کی مانند ہوتی ہے.

لیکن انکی بے راہ روی, اپنی مٹی سے بے مہری اور اپنے لوگوں اور دھرتی کے حالات و واقعات سے جان بوجھ کر لاعلمی اور اپنے ظالم، مظلوم اور ظلم میں فرق جاننے کے باوجود ظالم کی طرفداری نے مجھے پریشان کیا ہوا ہے، اپنے بھائی کی باتیں سن کر میں خود شش و پنج میں پڑ گئی کہ اصل ماجرا کیا ہے، جو میرا بھائی اتنا برہم ہے.

میں بھائی سے پھر پوچھی، بھائی جان اگر تقریر ختم ہوئی ہو تو اصل قصے کی طرف آئیں؟
بھاہی نے پھر سے بولنا شروع کیا “بانک آج جب میں ان دوستوں کے ساتھ تھا تو محمود اور محسن، نے مجھے بہت ڈانٹا اور مجھ پر غصہ ہوئے، انہوں نے کہاں نعیم (میرا بھائی) تم میں کونسا وطن پرستی کا کیڑا جاگ گیا ہے، جو فیسبک پہ لاپتہ افراد کے لیۓ بڑی آوازیں اٹھاتے پھرتے ہو. تمہیں کچھ حقیقت کا پتہ ہے یا کبھی جاننے کی کوشش کی کہ صرف وہ ہی کیوں لاپتہ ہوۓ ہیں؟ ہمیں کیوں کوئی کچھ نہیں کرتا ہے؟ ابھی بھی وقت ہے بیٹا تم خود کا سنبھالو، ورنہ پھر تمھاری ماں اور بہنیں بھی آواز لگاتی رہینگیں کہ ہمارا بیٹا_بھائی, نعیم, بے گناہ ہے اسے رہا کردیا جاۓ اور ہمیں جینے کا حق دیا جاۓ۔

لیکن نعیم تمھیں پتہ ہوگا کہ تمھارا قصور اور گناہ کیا ہے. یار تم لوگوں سے بڑا بے وقوف میں نے آج تک نہیں دیکھا ہے، جس ریاست کی تھالی میں کھاتے پیتے ہو اور زندگی جیتے ہو اسی میں ہی پیشاب کرنے کی چکر میں ہو. ایسے میں ریاست کہاں سے چھوڑیگی آپ کو. نمک حرامی کرنے والوں کے بھلا کون معاف کرتا ہے یار. باقی جہاں تک بات رہی بلوچستان کی تو وہ آزاد ہونے سے اتنا دور ہے، جتنا گدھا سینگھ سے. آزاد بلوچستان کی سوچ سواۓ خوش فہمی اور غلط فہمی کے اب کچھ نہیں ہے. یہ ایک فسانہ بن گیا ہے جسکی کوئی حقیقت اب نہ رہی. یہ اب کبھی نہ مکمل ہونے والی ایک خواب خرگوش بن گئی ہے. بلوچستان کی آزادی کے لیۓ اب نا ممکن بھی چھوٹا لفظ پڑ گیا ہے. خواہ مخواہ میں اپنا دماغ ان بیکار چیزوں میں ضائع نہیں کرو بلکہ اسلام آباد یا لاہور جاکر کچھ پڑھ لکھ لو آگے کی زندگی آسانی ہوجائیگی. فیسبک پہ نمک حراموں اور غداروں کے لیۓ آواز اٹھانا چھوڑدو وہ تمھیں کچھ نہیں دینے والے۔”

میں بھائی کی باتوں کو غور سے سننے کے بعد بولی “بھائی جان جہاں تک بات انکی بے حسی یا لاعلمی کی ہے تو اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیۓ. کیونکہ انہیں جسمانی طور مضبوط ہونے کے لیۓ کھانے, پینے, رہنے اور سونے کے لیۓ اچھی اچھی سہولیات دی جاتی ہیں. ان اچھے اچھے سہولیات میں انہیں غلامی کی گولیاں بھی ملا کر دی جاتی ہیں. جس سے انکے ذہن و دماغ مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں. وہ پھر صرف وہی سوچتے اور سمجھتے ہیں، جو سوچنے اور سمجھنے کے لیۓ انہیں کہا جاۓ. انہیں اپنوں کا درد کہاں سے محسوس ہو، جب انہیں اپنوں کا چین و سکون چھیننے اور درد دینے کے بدلے میں آرام و سکون کے خواب دکھاۓ جائیں۔

تم جو کر رہے ہو یہ تمہاری زندہ دلی اور وطن کی حلالی سپوت ہونے کی نشانی ہے. یہ حقیقی بلوچیت کا حسن ہے کہ تم بلوچ و بلوچستان کے لیۓ آواز اٹھاتے ہو. بلوچ و بلوچستان کو اپنا مانتے اور سمجھتے ہو. اسکی ہنسی اور خوشی کو اپنے ہنسی اور خوشی سے تعبیر کرتے ہو. اسکے درد و غم کو اپنے درد و غم سے جوڑتے ہو. تم جیسے فرزندوں پہ ہی تو وطن مادر فخر کرتی ہے. یہ تم جیسے وطن پرستوں کی محنت, کوشش اور لگن ہے کہ وطن مادر آج تک زندہ ہے اور ایک آزاد ریاست کی حسین خواب کے ساتھ جی رہی ہے اور بہادر نرمزاروں کو جنم دے رہی ہے. جو لوگ کہتے ہے کہ بلوچستان اب آزاد نہیں ہوسکتا یا آزادی سے بہت دور ہوگیا ہے تو یہ انکی غلط فہمی, خوش فہمی اور خام خیالی ہے. یہ تو اپنے دل کو تسلی دینے اور دوسروں کے ذہنوں کو لالچ, دھوکہ اور ڈر کے ذریعے برین واش کرنے کے لیۓ کرتے ہیں، جس طرح انکے اپنے ذہنوں کو غلام بنایا گیا. جب تک میر محراب خان, حمل جیئند, نورا مینگل, بابا خیر بخش مری, جنرل شیرو مری, اکبر بگٹی اور دوسرے ہزاروں وطن پرستوں کی طرح ہمارے پاس شہید نورا پیرک, شہید درویش, شہید امیر جان, شہید کمبر چاکر اور شہید جنرل اسلم جیسے وطن زادے ہے موجود ہے تب تک بلوچستان کی آزادی ایک روشن ستارے کی طرح ہمارے سامنے عیاں ہے. جو بہت ہی قریب ہے. اگر محسوس کرسکو تو ہمارے دلوں کو آزادی کی خوشبو اور ذہنوں کو روشنی یہی فراہم کر رہی ہے۔

اگر آج بلوچستان کے حالات دیکھو تو کٹھن سے کٹھن لیکن مزاحمت بھی اپنے عروج پر ہے. مزاحمت زندگی ہے. جب تک مزاحمت زندہ ہے تب تک غلامی کے تالاب اور چنگل سے نکلنے کے لیۓ راستہ صاف ہے. چونکہ آزادی کا سفر ہے تو یہ آسان بھی نہیں ہے اور مختصر بھی نہیں ہے. یہ ایک طویل سفر ہے جسمیں ذہنوں کی غلامی کا صفایا, غلامی کی سوچ ٹھونسنے والوں, آستین کے سانپوں کا صفایا اور قابض سامراج کا صفایا کرنا پڑتا ہے. اور یہ سب بیک وقت کرنے پڑتے ہیں. جس کی وجہ سے بظاہر یہ سفر ایک نہ ختم ہونے والے سفر کی طرح نظر آتی ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس سفر کا اختتام کامیابی و آزادی پہ ہی ہوتا ہے اگر مزاحمت مخلصی و لگن سے جاری رہتا ہے۔

اور اپنے دوستوں کو کہو مجھے لاہور و اسلام آباد جانے کی کیا ضرورت جب میرے پاس پڑھنے کے لیۓ بلوچستان ہے. میرے پاس شعور بخشنے کے لیۓ ظالم کا ظلم, ماؤں بہنوں کی آنسو, بھائیوں کی مزاحمت اور شہادت ہے. ان سے کہو ہمیں علم کی حقیقی روشنی سے منور کرنے کے لیۓ میرے پاس شہید جنرل اسلم, ابا مبارک قاضی اور کامریڈ عبدالنبی کے شکل میں استاد و والد موجود ہیں تو ہمیں باہر سے پڑھنے کی کیا ضرورت. ان سے کہو اگر پڑھنے کا مقصد بڑا آفیسر بننا ہے, اپنے ہی لوگوں پہ رعب جمانا ہے اور انہیں کم تر ثابت کرنا ہے تو مجھے ایسی پڑھائی کی کوئی ضرورت نہیں. میں جتنا بڑا آفیسر بنوں، رہونگا تو غلام ہی اور غلام کی حیثیت سونے کی زنجیر پہننے سے بدل نہیں سکتی ہے. ان سے کہو مجھے اپنے وطن کی سوکھی روٹی زیادہ عزیز و محبوب ہے، ان کھانوں سے جن کی نمک کھانے سے میں اپنے وطن کے لیۓ نمک حرام بن جاؤں۔”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔