شازیہ سے ملک ناز تک
تحریر: زارین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سانحہ ڈنک سے ایک پرانا واقعہ یاد آجاتا ہے۔ یہ 3جنوری 2005 کی رات تھی، ڈاکٹر شازیہ خالد سُوئی ڈیرہ بگٹی میں ایک پاکستانی پیٹرولیم کمپنی کے ملازمین کے کوارٹروں کے ایک کمرے میں اپنے بستر پر آرام کی نیند سورہی تھی۔ اچانک ایک شخص زور سے بال کھینچ کر اسے گہری نیند سے جگاتا ہے۔ نیند سے چونک کر بیدار ہوتی شازیہ کو ایک لمحے کے لیئے محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہی ہے کیونکہ پاکستانی سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں اس مضبوط کمپاؤنڈ میں کسی چور و ڈاکو کا داخل ہونا ممکن نہیں۔ مگر حقیقت شازیہ کے خیال سے بھی بدتر نکلتا ہے۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ظاہری محافظ ہی اس کی عزت تار تار کرنے والے ہیں۔
شازیہ اپنے خیال سے اس وقت نکلتی ہے، جب وہ جانور اپنے غلیظ ہاتھ شازیہ کی بالوں سے نکال کر اس کے گردن کے گرد زور سے حائل کردیتا ہے۔ درد سے تڑپتی شازیہ اپنی سانس بحال کرنے کے لیئے ہاتھ پیر مارنا شروع کرتی ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بھیڑیا پاس پڑے ٹیلیفون کا ریسیور اٹھاکر، اس سے شازیہ کے سر اور چہرے پر لگاتار ضربیں لگاتا رہتا ہے۔ وہ ٹیلیفون کے تار اکھاڑ کر اس کے ذریعے شازیہ کے ہاتھ اور پیر باندھ دیتا ہے۔ جب شازیہ کو احساس ہوتا ہے کہ اب اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، تو وہ پوری قوت یکجا کرکے مدد کے لیئے آہوپکار شروع کردیتی ہے۔ یہ دیکھ کر اُس درندے کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے اور سینہ تان کر کہتا ہے کہ ’’خاموش ہوجاؤ، باہر امجد مٹی کے تیل کا گیلن لیئے کھڑا ہے۔ اگر تم نے چلانے کی کوشش کی تو تمہیں زندہ جلادونگاـ‘‘۔ وہ ظالم شازیہ کےگلے سے ردا چھین کر اُس کے آنکھوں پر باندھ دیتا ہے اور اپنے دوسرے ساتھی سمیت باری باری رات بھر شازیہ کو زیادتی کا نشانہ بناتے رہتے ہیں، ٹی وی دیکھتے ہیں اور اپنی طاقت اور پہنچ کا چرچا کرتے رہتے ہیں۔
جب اُن درندوں کی جنسی ہوس بجھ جاتی ہے تو وہ مظلوم شازیہ کو ٹیلیفون کیبل سے بندھے اس کے کمرے میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اپنی بے حرمتی کا ماتم مناتی اور درد سے چُور اپنے زخمی جسم کو گھسیٹتی شازیہ مشکل سے اپنے ہاتھ چھڑا کر اور اپنے جسم سے اوڑھے ٹیلیفون کیبل کو نکال کر پھینک دیتی ہے۔ اپنے کمرے سے نکل کر شازیہ قریب موجود ایک ہسپتال کا رخ کرتی ہے، جہاں وہ ایک نرس سے مدد کی اپیل کرتی ہے۔ شازیہ کے الجھے بال، پھٹے کپڑے، سوجھی آنکھیں، خون سے لت پت سر، آنسوؤں سے دھلا چہرہ اور زخمی بدن دیکھ کر، وہ بوکھلائی نرس پیٹرولیم پلانٹ کے انتظامیہ کو بلاتی ہے۔
اس درندہ صفت سانحے میں گنہگار انتظامیہ نے شازیہ کی درد بھری آپ بیتی سن کر اُس کو مدد کی یقین دہانی کرائی مگر دردکش دواوں کے بہانے اسے نشے کی ادویات دے کر پورے 3 دن تک اُس پلانٹ میں اپنے خاندان سے منقطع اور بیہوش کیئے رکھا۔ تین بعد شازیہ کو دماغی مریض قرار دیکر کراچی بھیج دیا گیا۔
جب شازیہ کو ہوش آیا تو ان ریاستی بھیڑئیوں نے اسے دھمکی دی کہ وہ اپنی زبان بند رکھے کیونکہ یہ اُس کی عزت کے لیئے بہتر ہوگا۔ شازیہ کو اُس کے لیبیاء سے واپس آئے خاوند کے ہمراہ دو مہینوں تک کراچی میں ہاؤس اریسٹ میں رکھا گیا، جہاں نہ ہی اسے ڈاکٹر مہیا کیا گیا اور نہ ہی اسے باہری دنیا سے رابطہ کرنے دیا گیا۔ اسی دوران ریاستی کارندوں نے جرم کی جگہ سے تمام تر ثبوت مٹا دیئے۔ شازیہ کے پھٹے کپڑے جلادیئے گئے اور اُس کے کمرے میں موجود جرم کی تمام تر نشانیوں کو غائب کردیا گیا۔ شازیہ کے خاندان والوں کو دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نےکبھی بھی کسی سے اس سانحے کا ذکر کیا تو انہیں سخت نتیجہ بھگتنا پڑیگا۔
کسی نہ کسی طرح اس درندگی کی خبر کھل گئی اور پورے بلوچستان میں ایک طوفان برپا ہوگیا۔ ہزاروں لوگوں نے شاہراؤں اور بازاروں کا رخ کیا اور شازیہ کے لیئے انصاف مانگتے رہے۔ ڈیرہ بگٹی میں نواب اکبر خان بگٹی نے بلوچ زمین پر ایک سندھی خاتون سے زیادتی کو بلوچوں کی توہین قرار دیکر اس پر احتجاج کیا۔ اس موقعے پر پاکستانی صدر پرویز مشرف نے اس بغاوت کا قلع قمع کرنے کے لیئے دس ہزار فوجی بلوچ سرزمین پر بھیجے اور سینکڑوں انصاف طلب بے گناہ بلوچوں کا خون بہایا۔
شازیہ کے مجرم کیپٹن حماد اور اس کے ساتھی امتیاز کو صدر پاکستان نے براہ راست ٹی وی پر آکر معصوم قرار دے دیا اور سارا الزام مظلوم شازیہ کے سر ڈال دیا۔ ریاستی درندوں کو بچانے کےلیئے شازیہ کے کردار پر حملہ کرکے اسے ایک غلیظ پیشے سے منسلک کیا گیا۔ انصاف سے محروم شازیہ کو مجبوراً بلوچستان چھوڑ کر کینیڈا میں پناہ لینا پڑا۔
15 سال پرانے اس واقعے کی جھلک، آج بھی بلوچستان میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ماہ رنگ اور ملک ناز کی صورت میں ریاستی بھیڑیئے آج بھی بے غیرتی سے بلوچ عورتوں پر حملے کر رہی ہیں۔ سانحہ ڈنک ریاستی درندوں کے انہی مظالم کی ایک کڑی ہے۔ معصوم برمش اور اس کی شہید والدہ کے لیئے بلوچستان بھر میں کیئے جانے والے مظاہرے اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ بلوچستان زندہ ہے۔ بلوچ غیرت زندہ ہے۔ بلوچستان ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنی ماؤں بہنوں کی عزت بچانے اور ظلم کے خلاف لڑنے کو تیار ہے۔ بلوچ آج بھی کیپٹن حماد اور سمیر سبزل جیسے ریاسیتی بھیڑئیوں کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ شازیہ خالد کی بے حرمتی اور ملک ناز کی شہادت بلوچستان کی تاریخ کے سیاہ اوراق ہیں۔ رہتی دنیا تک بلوچ قوم ان مظالم کو یاد رکھے گی اور ان جیسے درندگیوں کے خلاف آواز اٹھاتی رہی گے۔ ریاستی اداروں اور بے ضمیر ڈیتھ اسکواڈز کو پیغام پہنچاتی رہے گی کہ بلوچستان زندہ ہے۔ برمش اور ملک ناز لاوارث نہیں ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔