سی ایس ایس کے لیے وسیع مطالعہ کی ضرورت ہے
تحریر: احمد علی کورار
دی بلوچستان پوسٹ
ہمارے ہاں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سی ایس ایس کا امتحان ڈگری کلاسسز کے امتحان کی طرح ہوتا ہے، دو چار کتابیں پڑھ لیں، رٹے مار لیں کام ہو جائے گا۔ اب تو مارکیٹ میں سی ایس ایس کے بنے بنائے نوٹس بھی دستیاب ہیں، نوٹس لے لیں اور انھیں رٹنا شروع کردیں اور ہم آرام سے اس طریقے کو سمارٹ اسٹڈی کا نام کر جان خلاصی کرتے ہیں۔
پھر کیا، ایسے امیدوار جو سمارٹ اسٹڈی کا سہارا لیتے ہیں، کیا وہ سی ایس ایس نہیں کر پاتے ہیں؟ ان میں کچھ نکل بھی جاتے ہیں۔ لیکن ایسا چند سال پہلے ہوتا تھا ،آپ نے نوٹس تیار کر لیے کچھ منتخب سوالوں کو پڑھنا شروع کر دیا اور سی ایس ایس کا امتحان دے دیا۔ نتیجہ آپ پاس ہوگئے آپ کی Allocation بھی ہو گئی، تو بھائی اور کیا چاہیے، اتنے سہل طریقے سے سی ایس ایس ہو گیا۔
لیکن اب یہ ٹرینڈ بدل چکا ہے، سلیبس بدل گیا ہے اب رٹوں اور مارکیٹ میں دستیاب نوٹس اور ڈگری کلاسسز کے گائیڈز سے کام نہیں چلایا جا سکتا ہے، اب وسیع مطالعے کی ضرورت ہے۔ آپ گذشتہ چند سالوں کے پرچوں پر عمیق نظر ڈالیں تو پتا چل جائے گا کہ پرچوں میں کیا پوچھا جا رہا ہے اور اس حوالے سے ہمارا مطالعہ کیسا ہے۔
چند دن پہلے ایک ٹیچر بتا رہے تھے جو سی ایس ایس کی تیاری کرواتے ہیں میرے پاس ایک سی ایس ایس امیدوار آیا، اس نے ہاتھوں میں ایک گائیڈ پکڑی ہوئی تھی اور مجھے کہنے لگا سر،مجھے اہم سوالات ٹک کرکے دیں تا کہ میں ان سوالات کو تیار کر سکوں استاد محترم بتا رہے تھے میں محو حیرت ہو گیا۔
آج کے نوجوان نے سی ایس ایس کو عام امتحان سمجھ رکھا ہے۔ گائیڈز لے لیے نوٹس بنا لیے رٹے مار کر امتحان دے دیا پھر جب نتیجہ آتا ہے تو امیدواروں کی ایک بڑی تعداد فیل، پھر باتیں بنائی جاتی ہیں کہ FPSC نے تو اس بار فلاں سبجیکٹ کو ٹارگیٹ کیا۔
یاد رکھیں FPSC ایک ٹیسٹنگ ایجنسی ہے اس کا کام محض امتحان Conduct کروانا اور رزلٹ دینا ہے باقی آپ کے پرچے تو FPSC سیٹ یا چیک تو نہیں کرتی بلکہ اس کی نگرانی میں امتحانات کا انعقاد ہوتا ہے۔
اور ہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ پرچے ٹارگیٹ ہوئے ہیں اور سارا الزام FPSC پہ دھر دیتے ہیں۔ اصل میں وہ پرچے چیک کرنے والے کے معیار پر نہیں اترے چیک کرنے والا یہ سمجھتا ہے امیدوار نے میرے پرچے کے ساتھ انصاف نہیں کیا تو وہ کیونکر اس امیداوار کو پاس کرے گا۔
دوسرا اہم نکتہ ہمارے ہاں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سی ایس ایس میں صرف ایک ہی پرچے پر زیادہ محنت کی ضرورت ہے وہ ہے انگریزی مضمون، باقی ہو جاتے ہیں یہ سوچ کر ہم اپنی پوری استعداد اسی ایک پرچے کے لیے صرف کر دیتے ہیں پہلے ہوتا تھا، دوسرے آپشنل پرچوں کے لیے اتنی تیاری کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کیونکہ سیدھے سیدھے سوال ہوتے تھے کام چل جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں، ہر مضمون اتنا ہی مواد مانگتا ہے جتنا کہ انگریزی مضمون۔
ہم اب ڈگری کلاسسز کے گائیڈز پر اکتفا نہیں کر سکتے
آج کے سی ایس ایس کے لیے وسیع مطالعے کی ضرورت ہے General Reading ضروری ہے اور سبجیکٹس کو بنیاد سے پڑھنا ہے ایک تسلل کے ساتھ، تاکہ چیزیں آپ کو سمجھ آسکیں۔
یاد رکھیں شارٹ کٹ سے کام نہیں چلایا جا سکتا۔
جب آپ کسی بھی سبجیکٹ کو connectivity کے ساتھ پڑھیں گے تو آپ خود بخود ان چیزوں کو analyse کرنا شروع کردیں گے اور آج کا سی ایس ایس یہی تو مانگتا ہے کہ رٹے کی دنیا سے نکلیں اور چیزوں کو analyse کرنا سیکھیں۔ہمیں اب قائداعظم کے چودہ نکات اور نہرو رپورٹ کو رٹنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے ہم نے اس قدر عمیق مطالعہ کرنا ہے کہ آخر یہ نکات اصل میں ہیں کیا ، اس کا ہم موازنہ کریں تو کیا نتیجہ اخذ ہوتا ہے۔ اور یہ سب تب ممکن ہے جب ہمارا مطالعہ وسیع ہو۔
جنرل مطالعے میں ہم نے تاریخ، سیاست اور فلسفے کو زیر مطالعہ لانا ہے۔
یاد رکھیں کہ جب آپ جنرل مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کے اندر چھپی صلاحیت سامنے آتی ہے آپ analyse کرنا شروع کر دیتے ہیں آپ اچھے نقاد بن جاتے ہیں۔
جب ہمارا جنرل مطالعہ وسیع ہو گا تو انگریزی مضمون کا پرچہ بھی سہل طریقے سے ہوجائے گا۔ اگر ہم سی ایس ایس کے انگریزی مضمون کے پرچے پر نظر ڈالیں تو موضوعات میں ہمیں تاریخ، سیاست اور فلسفے سے جڑے موضوعات بھی ملتے ہیں۔
سو سی ایس ایس کرنے کے لیے آپ رٹے کی دنیا سے نکلیں اور وسیع مطالعے سے ہی آپ سی ایس ایس امتحان کو crack کر سکتے ہیں کیونکہ تحریری امتحان کے علاوہ سی ایس ایس کے انٹرویوز بھی Opinion based ہوتےہیں۔
اس مرتبہ 2019 کے نتائج دیکھ لیں تشفی ہو جائے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔