دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
عجوبے
آب نوشی
ہمارے گوادر کے میزبان البتہ جہاز کی اس منسوخی پربہت خوش تھے۔ علی بلوچ کے منصوبوں سے بھرے زیرک دماغ کے شیڈول میں ہماری تفریح کے لیے دو تین پروگرام ابھی باقی تھے، جن میں سے ایک تھا، آکڑہ ڈیم کی سیر۔ اس ڈیم کی تعمیر سے قبل بحیرہ بلوچ کے تمام ساحلی علاقوں کی طرح گوادر بھی آب نوشی کے سنگین مسئلے سے دوچار تھا۔ پہلے یہ لوگ بھی بلوچستان کے دوسرے علاقوں کی طرح بارش کے پانی کو بڑے بڑے تالابوں میں جمع کر کے سال بھر پینے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ 1998ء میں آکڑہ کور پہ یہ بند تعمیر کیا گیا۔ جو کہ گوادر شہر سے 28 اور ائیر پورٹ سے 16 کلو میٹر شمال کی جانب واقع ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں سے روزانہ 13 لاکھ گیلن پانی گوادر، پیشکان، جیونی اور آس پاس کے دس گاؤں اور دیہاتوں کو دیا جاتا ہے۔
آبنوشی کا ایک اور ذریعہ ہیجی ڈیم ہے جو کہ گوادر سے 60 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور اسے سٹینڈ بائی کے بطور پر رکھا گیا ہے۔
اللہ نے ہمارے کوئٹہ اور اسلام آباد کے ”نزدیک بیں“ حکمرانوں کو اس سعادت کا اہل ہی نہیں بنایا کہ وہ اولادِ آدم کی سہولت کے لیے سمندری پانی کو پینے کے قابل بنائیں۔ گوادر میں نیوی والوں کا ایک ایسا پلانٹ موجود ہے۔ وہاں سمندری پانی کو چھوٹے چھوٹے تختوں میں جمع کیا جاتا ہے، جنہیں وینائل پلاسٹک کے شفاف شیٹوں سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ سورج کی حرارت میں پانی بخارات بن جاتا ہے اور بخارات وینائل پلاسٹک کے شیشوں پر جمع ہوتا ہے جہاں سے چھوٹی نالیوں کے ذریعے پانی زیر زمین تالاب میں جمع کیا جاتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی ساحلی آبادی کو سمندر کا پانی میٹھا کرنے کے چھوٹے چھوٹے پلانٹ لگا کر، شمسی توانائی یا ہوا والی توانائی دے کر بہت ترقی کی جاسکتی ہے۔ ساحل پر ویسے بھی شمسی توانائی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ ہوا سے بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ مگر ان لوگوں سے کیا روشنی مانگنا جو صرف اندھیرے بانٹنے کے مشاق ہیں۔
دریائے چم
ائیر پورٹ سے واپسی پر حمید نے سڑک سے بائیں جانب گاڑی اتار دی، کچی سڑک کی جانب یہ جھکاؤ ہماری سمجھ میں نہ آیا جب کہ حمید جان پر اسرار طور پر خاموش تھا۔ سسپنس اس وقت ختم ہوا جب ہم کچھ دور ایک ٹیکری نما جگہ پر جاکر رکے۔ اس ٹیکری پر جا کر دیکھا تووہ ایک دلدل تھی،جسے گوادری لوگ ”دریائے چم“ (سمندر کی آنکھ) کہتے ہیں۔ (ہم بلوچ لوگ اردو والا لفظ، سمندر دریا کے لفظ سے بدل دیتے ہیں، ہم شہر گاؤں کو کہتے ہیں اور بندر کو شہر اور قبیلہ کو قوم کہتے ہیں)۔ یہ چار پانچ فٹ بلندی پر پندرہ فٹ قطر کا دائرہ نما ابھار ہے۔ کنارے خشک ہیں اور پھر اندر رفتہ رفتہ نمی ہوتی جاتی ہے اور یہ نمی بڑھتی جاتی ہے حتیٰ کہ مرکز کی طرف کیچڑ ہے۔ مزید اندر دلدل اور پھر بالآخر مرکز میں پانی جیسا پتلا میلا اور گرد آلود مائع ہے جہاں سے تین چار سیکنڈ کے وقفوں سے ”گڑوپ“ کی آواز کے ساتھ ایک بڑا سا بلبلا بن کر پھٹ جاتا ہے۔ اس آنکھ میں جو بھی چیز جائے، دلدل اسے اپنے اندر کھینچ لیتی ہے۔ ہم سے بھی میزبانوں نے سگریٹ کے خالی پیکٹ وہاں اچھالنے کی فرمائش کی اور ہم نے دیکھا کہ کچھ ہی سیکنڈ میں وہ رنگین پیکٹ ہضم ہو چکا تھا۔ چنانچہ اگر کوئی مویشی بھی پانی پینے یا کسی اور وجہ سے جائے تو اسے بھی دلدل کھا جاتی ہے۔ اسی لیے دریائے چم کے چاروں طرف کانٹے دار جھاڑیاں رکھ دی گئی تھیں۔ ایسی فلمیں میں نے بہت دیکھی ہیں۔ آج اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور وہ بھی اپنے بلوچستان عظیم الشان میں۔ یہاں کے بلوچوں کا خیال ہے کہ یہاں سے زیر زمین کوئی سرنگ کئی کلو میٹر دور موجود سمندر تک جاتی ہوگی۔
نمک سازی
”دریائے چم“ کوہ ِمہدی کے پاس ہے۔ کوہِ مہدی کا نام قبیلہ سنگور کی ایک شاخ مہدی زئی کے یہاں آباد ہو جانے سے پڑ گیا۔ یہ سفید مٹی کا بنا ہوا پہاڑ ہے، جس کی سفید بے ڈھنگی چوٹیاں ہیں۔ کوہ ِمہدی کے دامن میں دوسری اہم چیز ”نمک کا میدان“ ہے۔ یہ خاصی دلچسپ جگہ ہے۔ لوگ یہاں سمندر کے قریب تقریباً پانچ فٹ گہرا گڑھا کھود لیتے ہیں جہاں سمندری پانی رس رس کر آتا ہے اور گڑھے بھر جاتے ہیں۔ پھر اس پانی کو نکال نکال کر قریب ہی بنائے گئے بالشت بھر بنائے گئے چوکور کھڈوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جب سورج کی شعاعوں میں یہ پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے تو باقی نمک رہ جاتا ہے جسے اکٹھا کر کے دو سو روپے فی بوری کے حساب سے بیچتے ہیں۔ ماہی گیر اس نمک کو مچھلی کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ ”زری وہاد“ کے نام سے پورے بلوچستان میں مشہور ہے۔ جہاں لوگ اسے حیوانات بالخصوص گھوڑوں کے علاج معالجے میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ساحل پہ ماہی گیر اسے اپنی مچھلی پہ لگاتے ہیں تا کہ خراب نہ ہو۔
نمک کے میدان کی طرف آتے ہوئے دور سے سفید اور مٹیالے نمک کی ڈھریاں الگ الگ نظر آنے لگتی ہیں۔ جو بالترتیب اعلیٰ اور کم اعلیٰ اقسام ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔