دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
بلوچ ساحل و سمندر | فشریز ڈیپارٹمنٹ
ہم ساحل بلوچستان کی پسماندگی کے سب سے بڑے سبب یعنی فشریز ڈیپارٹمنٹ چلے گئے تا کہ استبدادی سرکار کے اس آخری سرے کو بھی دیکھ لیں جس نے اس قدر خوب صورت اور منافع بخش ساحل کو دنیا کے پسماندہ ترین ساحلوں کی صفوں میں جا دھکیلا۔
حسبِ توقع ہمیں بڑا کوئی افسر نہ ملا۔ کوئی ڈی سی کے حضور گیا ہوا تھا۔ کوئی سبزی خریدنے۔ نچلے اہلکار تو اس طرح ملے جیسے ہم ان سے چاغی کے ایٹم بم کا راز معلوم کرنا چاہتے ہوں۔ ماہی گیری سے متعلق ساری معلومات فائلوں میں بند تھیں۔ فائلیں لوہے کی الماریوں میں اور لوہے کی الماریاں مقفل تھیں اور ان کی چابیاں صاحب کے پاس تھیں، اور صاحب خود ڈی سی صاحب کے پاس۔ شیطانی چکر ہے ہمارا حاکم طبقہ۔
ہم نے صاحب کو فون پر آمد کی اطلاع دی اور ان کی تشریف آوری تک وہاں فوٹو گرافی کرتے رہے اور مختلف امور پر معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ بالآخر ہمیں شرف باریابی نصیب ہوا۔
محکمہ فشریز کی ہیرار کی کچھ یوں ہے:
پہلا نام سیکرٹری کا دوسرا ڈائریکٹر کا۔ یہ دونوں یہاں سے سیکڑوں میل دور کوئٹہ میں پجیرو گاڑیوں، ائیر کنڈیشنڈ دفتروں میں فضول بیٹھتے ہیں۔ جہاں نہ مچھلی ہے، نہ سمندر ہے، نہ دریا ہے۔ ڈائریکٹر کی پوسٹ پسنی میں ہے۔ مگر ہمارے انگریز نو آباد کاروں کے یہ جانشین رہتے کوئٹہ ہی میں ہیں اور ایسے لوگ سیکرٹری گیری اور ڈائریکٹری کرتے رہے ہیں، جن کے آباؤ اجداد نے بھی مچھلی کی شکل نہ دیکھی تھی۔ جن کا ماہی، ماہی گیر اور ماہی گیری سے دور کا تعلق نہ تھا۔ میرا وطن دلچسپ ہے جہاں فلسطینیوں کے خون میں رنگا جنرل ضیا، امیر المومنین بنتا ہے، جہاں خشکی کا وڈیرہ ماہی گیری کا سیکرٹری بنتا ہے، اور پوٹھوار کے بارانی علاقے کا آدمی نیوی کا چیف بنتا ہے۔
ڈائریکٹر کے بعد دو عدد ڈپٹی ڈائرکٹرز ہوتے ہیں۔ ایک ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمن ہوتا ہے جو کہ ماہی گیروں کی بہبود کے لیے تو کچھ نہیں کرتا۔ البتہ وہ ماہی گیر کو 24 گھنٹہ تک جیل میں ڈال سکتا ہے۔ دوسرا ڈپٹی ڈائریکٹر ”میرین ڈپٹی ڈائریکٹر“ کہلاتا ہے۔ یہ تعداد میں دو ہوتے ہیں؛
1۔اِن لینڈ
2۔ سمندر
ان ڈپٹی ڈائریکٹروں کے بعد پھر اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر گوادر، اسسٹنٹ ڈائریکٹرحب، جیونی اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر پسنی۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے نیچے فشریز آفیسر ہوتے ہیں۔ اس کے نیچے انسپکٹر ہوتے ہیں جو کہ صبح مارکیٹ جاتے ہیں، اعداد و شمار کرتے ہیں کہ کتنا ٹن پیداوار ہوئی ہے، قیمت اور نرخ کیا رہے ہیں، سالانہ آمدنی کتنی ہوتی ہے…… (اعداد و شمار اوربلوچستان؟ ہونہہ!)
انسپکٹر کے نیچے اسسٹنٹ انسپکٹر ہوتا ہے۔
فشریز ڈیپارٹمنٹ والے نے اپنی خدمات یوں گنوائیں؛
”1۔ ہم لانچ سستے نرخوں پرقسط وار ماہی گیروں کو دیتے ہیں۔ نیز ”ماہور“ بھی سستی قیمت پر قسطوں پر دیتے ہیں۔ مگر ان کے اس دعوے کو ماہی گیر مسترد کرتے ہیں۔ ماہی گیروں کا مؤقف ہے کہ یہ چیزیں حق دار کو بالکل نہیں ملتیں بلکہ با اثر اوپری طبقہ میں بندر بانٹ کردی جاتی ہیں۔ جب ہم نے آفیسروں سے استفسار کیا تو انہوں نے نظریں چرا لیں اور مونچھوں کے نیچے بڑی دھیمی شرم سار آواز میں وہی منحوس جواز پیش کرتے ہوئے ماہی گیروں کے مؤقف کی تصدیق کی کہ ”آپ کو تو معلوم ہے کہ پچھلا سارا دور سیاسی، کرپٹ حکومتوں کا رہا ہے، اس لیے وزیروں، ممبروں کے کہنے پر سب کچھ تقسیم ہوا ہے“۔ (کرپٹ سیاسی وزیر، اس کے کرپٹ افسر شاہی اور ان کے پورے نظام کے دائرے کو توڑنا ہی تو بلوچستانی انقلاب ہو گا)۔
”2۔ ہم فی پیکٹ پانچ روپے لے کر Curing(مچھلی خشک کرنے) کی سہولتیں دیتے ہیں۔40کلو گرام کے 5روپے فیس لے کر مچھلی خشک کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یعنی ہم جگہ کا انتظام کرتے ہیں۔
”3۔ کوئی ماہی گیر گم ہو جائے تو ہم اس کی تلاش میں پیٹرولنگ کرتے ہیں۔ ان بھائی صاحبوں کے پاس گم شدہ ماہی گیر کو تلاش کرنے کا ایک بھی اوزار نہیں ہے۔ نہ کشتی، نہ وائر لیس، نہ ٹارچ، نہ ہیلی کاپٹر، حتیٰ کے ان کے دفتر میں ان کے لیے اپنے لائف سیونگ جیکٹ تک نہ تھی۔ چلے ہیں گم شدہ ماہی گیروں کو ڈھونڈنے!! بے تیغ بھی لڑتا ہے آفیسر۔ مگر کبھی بھی بغیر تنخواہ کے نہیں لڑتا۔ ادھر تو غم یہ ہے کہ تنخواہ لے کر بھی کام نہیں کرتا۔ گھوسٹ ملازم پتہ نہیں کس کو کہتے ہیں!
”4۔ سرکاری ورکشاپ میں انجن مرمت کرائے جاتے ہیں“۔
مگر اصل صورت حال یوں ہے کہ …………
فشریز ڈیپارٹمنٹ کی ورکشاپ تو موجود ہے مگر وہ انجن نہیں لاتے۔ حالاں کہ اگر فش ہاربر پر سستے داموں یہ پرزہ جات دستیاب ہوں تو کراچی سے مہنگے داموں لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہاں کوئی میرین ٹیکنیکل کالج نہیں ہے۔ ماہی گیروں کے لیے کوئی سوشل سیکورٹی سسٹم نہیں ہے، نہ ہی انشورنس سکیم ہے۔ (فشریز ڈیپارٹمنٹ جتنا نکما محکمہ کوئی اور ہو گا؟)۔اس محکمہ نے جو کارکردگی ہمیں بتائی اس میں Curing Yardمہیا کرنے کا بار بار تذکرہ کیا۔ مگر ہم نے جاکر تفصیل سے جائزہ لیا تو سادہ سادہ میدان ہے۔ کوئی سہولت نہیں۔ ایک بار انہوں نے 20 فیصد کے حساب سے سپیر پارٹس، انجن اور آلات ماہی گیری سپلائی کر دیے۔ ”آٹھ اور پندرہ پندرہ ہارس پاور کے یاماہا انجن ہم ماہی گیروں کو دیتے ہیں“۔ مگر دوسری ہی گھڑی میں اصل بات یہ سامنے آئی کہ یہ سب کچھ بندر بانٹ ہوئی اور ایسے ایسے لوگوں کو انجن دیے گئے جن کا ماہی گیری سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ ماہی گیروں کو ابھی بھی جال وغیرہ کی ضرورت ہے۔ یہ محکمہ مارکیٹنگ میں غریب ماہی گیروں کی کوئی مدد نہیں کرتا (محکمے تو خود ”ہم انسانوں“ کی مارکیٹنگ کرتے پھرتے ہیں)۔
گو کہ ٹرالر سے ماہی گیری کرنے پر پابندی ہے اور دنیا بھر میں ماہی گیروں کی بین الاقوامی جدوجہد کی بدولت غریب ملکوں کے ساحلوں پر ملٹی نیشنل ٹرالرز کا داخلہ بند کیا جا رہا ہے۔ جن میں انڈیا، ویت نام، تھائی لینڈ، فلپائن اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ مگر ہمارے لالچی اندھے حاکم غیر ملکی ٹرالروں کو خود ہی دعوت دیتے ہیں۔ یہ بڑے ظالم ٹرالر ہوتے ہیں جن میں مچھلی پکڑنے سے لے کر اس کی پیکنگ اور فریزنگ تک کی ساری سہولتیں موجود ہوتی ہیں۔ غیر ملکی ٹرالرزمچھلی کی نسل کشی کرتے ہوئے دندناتے پھرتے ہیں۔ وہ مستی اور خرمستی میں ہمارے چھوٹے ماہی گیروں کے جال کو پھاڑ لے جاتے ہیں۔ آپ فشریز کے محکمہ کے لوگوں کو 25 یا 30 ہزار روپے رشوت دیں اور بے شک پورا بلوچستان خرید لیں۔ ہمارے یہ وطن فروش افسر اس کا سودا کرنے پہ ہمہ وقت تیار ملیں گے۔
وائر نیٹ بھی ممنوع ہے مگر………… ڈالر دکھاؤ، سب کچھ قانونی بن جاتا ہے۔
زرعی بنک مچھیروں کے نام کوئی قرضہ سکیم مہیا نہیں کرتا بلکہ کئی واقعات اس طرح کے ہوتے ہیں کہ زرعی بینک والے مچھیروں کے شناختی کارڈ لے جاتے ہیں اور منیجر صاحب انہی مچھیروں کے نام کا قرض اپنے ہم پیالہ ساتھیوں کو دے دیتا ہے اور سال دو سال بعد غریب ماہی گیروں سے نہ لیے گئے قرض اور اس پر واجب سود مانگنے کا تقاضا ہوتا ہے۔ تب ماہی گیر کو پتہ چلتا ہے کہ اس کے نام پر جعلی قرضہ لیا گیا ہے۔ کچہری، عدالت، جھولی، آنسو………… مگر جیلیں۔
صحت کی سہولتیں دینا تو گویا فشریز ڈیپارٹمنٹ کا کام ہی نہیں ہے، نہ ہی آئندہ کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ ہے۔ کسی طرح کے وائر لیس سیٹ کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی اطلاعاتی یا امدادی نظام موجود نہیں ہے۔ سمندر میں اگر مچھیرے پہ کوئی مصیبت آئے یا لانچ خراب ہوکر تین تین دن تک بیچ سمندر کھڑی رہے تو بس اللہ ہی مالک ہے، اکیسویں صدی کے فشریز آفیسرکو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ ہلاک شدگان کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ حادثات میں زخمی کی کوئی مالی کفالت نہیں ہوتی، کوئی بے روزگاری الاؤنس نہیں ملتا۔ منشیات کو کنٹرول اور نشہ میں غلطاں انسانوں کی بحالی کی کوئی سکیم موجود نہیں ہے۔
محکمہ، ماہی گیروں کے لیے کوئی سکول نہیں چلا رہا۔ تنظیم سازی میں یہ مچھروں کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ بلوچستان کا فشریز ڈیپارٹمنٹ ماہی گیروں کے لیے کسی طرح کا کوئی ورکشاپ، سیمینار نہیں کراتا اور نہ ہی کسی طرح کی ٹریننگ کی سہولتیں دیتا ہے۔ فشر مین کے لیے کوئی کو آپریٹو سوسائٹی موجود نہیں ہے۔ دوسرے ملکوں یا پھر کراچی وغیرہ میں گرفتار مچھیروں کی کوئی شنوائی یا امداد کا تصور موجود نہیں ہے۔ کوسٹل گارڈ، کسٹم اور پولیس میں سیکڑوں میل دور کے لوگوں کو تو بھرتی کیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے اپنے بچے بے روزگار، نشہ کرتے پھرتے ہیں انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ مچھلی کا محکمہ مچھلی سٹور کرنے میں کوئی مدد نہیں کرتا۔ پیکنگ کی فیکٹریاں کراچی میں لگی ہوئی ہیں۔ 90 فیصد سے زیادہ ماہی گیری بلوچ کرتا ہے مگر پیک شدہ مچھلی کے ڈبوں پر ”سندھ“ لکھا ہوتا ہے۔ ہمارا محکمہ آفیسروں کا مزار ہے، مگر جہاں اگر بتیوں کا دھواں تک نہیں ہوتا۔
اس مزار پر پھٹکار کے بعد حضرت امیر الدین مچھلی پکڑنے کے شوق میں نوجوانوں کے ساتھ سمندر چلا گیا اور میں نے اپنے مشن کی بجا آوری کے لیے علی بلوچ کے ساتھ جیٹی کا رخ کیا۔ جہاں مچھیرے ہوتے ہیں، زندگی ہوتی ہے، زندگی کا شعور ہوتا ہے۔ مچھیرا جو بلوچ کا روزی رساں ہے۔ محنت کا سفیر ہے، تکریم و احترام کا اصل حق دار۔ دنیا نے ابھی تک ہمارے مفت خور، نا اہل، کاہل، چور، کرپٹ اور بڑی توند والے فیوڈل کو دیکھا ہے، ہمارے وطن فروش بیورو کریٹ کو دیکھا ہے۔ مگر اس نے بلوچ جوہر کو ابھی تک نہیں دیکھا۔ ضرورت ہے کہ ہمارا اصلی چہرہ (محنت، حلال روٹی، سادگی، استقامت، بہادری، سچائی، ایمانداری، اور بھائی چارہ) یعنی ماہی گیر کو روشناس کرکے بلوچ کے بارے میں دنیا کی رائے کو بدلا جائے۔ دنیا کی رائے حتماً بدل جائے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔