زندگی؟
تحریر: زیرک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہر دن جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اشرف المخلوقات کے لئے جینے کی نئی امید، زیست کی روشن امیدیں لے کر آتا ہے۔ غروبِ آفتاب کے وقت زندگی کی تلخیاں اپنے ہمراہ لے جاتا ہے۔ ہر بشر اپنے آنے والے کل کے لئے ایک نئے حکمت کے ساتھ زندگی کو ہر دم ایک نئے موڑ سے روشناس کرانے کی کوشش میں مگن رہتا ہے۔ یوں زندگی کبھی اختتام کو نہیں پہنچ پاتا شاید زندگی کا اختتام زمان و مکان کے اختتام سے منسلک ہو، جب زماں ومکان کا اختتام ہوگا تب شاید زندگی بھی اپنے اختتام کو پہنچے۔ زندگی کی شروعات زماں و مکاں کے وجود میں آنے سےممکن ہوا۔
خوشی، سکون، آرام، غم، سب اس وقت ہی معنیٰ دار لگنے لگتے ہیں جب ان احساسات کو ہم اپنی ذات کے اندر محسوس کر سکیں، یوں محسوسات کبھی معنی کی طرف تو کبھی بےمعنی سے ہونے لگتے ہیں، ایک احساس جو بھیڑ میں رہ کر بھی تنہا کرنے کے درپے ہوتا ہے اور وہ تنہائی جس سے لڑنا اور سمجھنا چاہیئے وہاں ہم اپنی ذات کو ایک گھپ اندھیرے سے ماحول میں محسوس کرنے لگتے ہیں جہاں اپنے ہی وجود کے بوجھ تلے اپنے ہونے کے احساس کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
زندگی جس نے ہر فرد کو ایک نئے معنیٰ کے ساتھ جوڑے رکھا ہے، جس کا فلسفہ شاید آج بھی ناقابلِ بیان ہے کہ انسان نے اپنے خول کے اندر رہ کر مرنا اور جینا سیکھا ہے۔ جہاں انسان ایک نقطے سے شروع ہو کر ایک نامکمل و ناممکن حد تک وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ اور یوں وسیع میدان میں ایک نقطے سے شروع ہونے والی زندگی لاتعداد نقطوں پہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔ یہ نقطوں کی جنگ نجانے کہاں سے شروع ہوکر کہاں تک آں پہنچتی ہیں جہاں زندگی کا مفہوم کئی رہ جاتا ہے دور کسی موڑ پہ ھم اسے چھوڑ جاتے ہیں، جہاں واپسی ممکن تو مگر مشکل ضرور ہے۔ ہر ایک موڑ پہ ھم زندگی کو ایک نئے معنیٰ سے دیکھنے سمجھنے و پرکھنے کی کوشش میں خود کو ایک بے معنیٰ سے اندھیرے غار میں محسوس کرنے لگتے ہیں۔
زندگی کے مفہوم کی تلاش میں کبھی قدرت تو کبھی مصنوعات کے بیچ خود کو کسی موڑ پہ چھوڑ جاتے ہیں، جہاں زندگی شاید کبھی اختتام کو نہ پہنچ پائے جہاں زندگی کی سفر میں انسانوں کے مصنوعی شہروں سے لے کر جنگل و بیابان تک اسی مفہوم کے متلاشی اپنے سفر میں مشغول کئی پہنچنے کی کئی رکنے کی آس لئے کبھی مرتے ہیں تو کبھی جی لیتے ہیں۔ جہاں زندگی بے شمار معنیٰ لئے ہمارے سر پہ وحشی درندے کی طرح نئی نئی باتیں ہمیں دکھانے، بتانے و سمجھانے کی کوشش میں جتن کئے رہتا ہے۔
زندگی کا مفہوم شاید کہیں نہ مل سکے۔ جنون، مخلصی و حقیقت پسندی کچھہ لوگوں کو شاید وہ مقام دے جاتا ہے جس کی تلاش میں کئی انسان بھیڑ بکریوں کی طرح ہر نظر آنے والی فریب میں مبتلا ہوکر اپنے راستہ سے بہک جاتے ہیں جہاں بہک جانا بھی شاید ایک معنیٰ رکھتا ہو، جہاں زندگی اشیائی بنیاد پر انسانی بنیادیں تباہ و برباد کر جاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔