خدایا سنو تو
تحریر: یارجان زیب
دی بلوچستان پوسٹ
خدایا سنو تو ہماری آواز تمہارے عرش تک پہنچ رہی ہے یا پھر زمیں کے فرعونوں کی وجہ سے بس یہی دب گئی ہے؟ آج محض ایک برمش اور اُس کی ماں نہیں بلکہ آج بلوچستان میں پیش آنے والے ایسے ہر ایک واقعے پر بات ہونی چاہیئے، واقعہ تربت کا ہو یا خاران کا شال کا ہو یا مستونگ کا سب پر آواز بلند کرنا چاہیئے۔
ایک عرصے سے کئی طریقوں سے سرزمیں بلوچستان پر ظلم ہورہاہے، ہم کسی کے خلاف نہیں، مگر ہم کسی کو اپنے عزت ننگ اور ناموس پر وار کرنے کی اجازت بھی نہیں دے سکتے۔
سلام اُن تمام ماوں، بہنوں، بھائیوں اور بزرگوں کو جنہوں نے برمش کے ساتھ پورے بلوچستان کے لئے آواز بلند کیا ہے اور دنیا کو بتادیا کہ ہم زندہ ہیں اور زندہ ہی رہیں گے۔
ایک طرف برمش کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف پورے بلوچستان میں احتجاج جاری ہے اور دوسری طرف شہدائے بلوچستان کے قبروں کو مسمار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ طاقت کا استعمال کسی بھی مسئلے کا نہ حل تھا نہ ہے اور نا ہی ہوگا۔ سمجھ لینا چایئے اُن سب کو کہ اگر طاقت ہی مسئلے کا حل ہوتا تو آج افغانستان میں امریکہ کا راج ہوتا اور بات مذاکرات تک نہ آتی، دوسری جانب دنیا کےباقی ملکوں میں ہر احتجاج کرنے والے کو سیکورٹی دی جاتی ہے اور اُن کو ہر ممکن مدد فراہم کیا جاتا ہے، جبکہ اس کے برعکس یہاں سیکورٹی تو دور کی بات ہماری ماوں، بہینوں کو نشانہ بنایا جاتاہے، وہ بھی اپنے ہی صوبے میں کیا یہاں قانون صرف ہمارے لئے ہے؟ کیا یہاں انصاف کو ایسے اپنے پاؤں کی جوتی بناکر گُھومتے رہیں گے؟ آخر کب تک سرزمیں پر ڈاکو، غدار، میر، نواب، خانوں کی حکومت رہے گی؟ آخرکب تک زندگی کے رنگ ہمیں سادہ ہی نظر آتے رہیں گے، آخر کب ہم نیند سے بیدار ہو کر ایک آواز اور جسم کے ساتھ ظلم کے خلاف یکجا ہونگے۔ آخر کب تک؟
تعلیمی نظام میں ہمیں مات دینے کی بات ہو تو کئی طریقے استعمال کیئے جاتے ہیں مگر مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں گلی گلی میں خون اور ہمیں روز دھمکی دینے سے ہماری ہمت نہیں ٹوٹ سکتی ہے نہ ہی ہم ہمت ہاریں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔