بلوچستان کے شہر تربت میں گذشتہ دنوں کوئٹہ میں مظاہرین طلباء پر تشدد اور گرفتاری کیخلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی اور مظاہرہ کیا گیا۔
بلوچ اسٹوڈنٹس الائنس کیچ کے زیر اہتمام عطاشاد کالج سے شہید فدا چوک تک ریلی نکالی گئی۔ جہاں ریلی نے دھرنے کی شکل اختیار کی۔
شہید فدا چوک پر مظاہرے سے طلباء رہنماوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ میں نہتے طلبہ اور طالبات پر پولیس گردی ایک پالیسی کا تسلسل ہے جو ثابت کرتی ہے کہ بلوچوں کو زندگی کے دیگر حقوق کے ساتھ تعلیم کا حق بھی حاصل نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے آئینی حقوق کے لیئے پر امن احتجاج کرنے والے طالبات کو پولیس کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنانا اور سڑکوں پر گھسیٹ کر جیل میں بند کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور آئین میں دیئے گئے حق کی پامالی ہے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکمران بے اختیار اور کٹھ پتلی ہیں ان سے جو کہا جاتا ہے وہ پورا کرتے ہیں۔ سلیکٹڈ حکمران ملازم کی حیثیت رکھتی ہیں اس لیئے ان سے حقوق مانگنا بے نتیجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آن لائن کلاسز قابل قبول نہیں جب تک ہمیں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں دی جاتی احتجاج جاری رکھیں گے۔
خیال رہے کوئٹہ میں مظاہرین طالب علموں کے گرفتاری اور تشدد کیخلاف احتجاج کا نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ گذشتہ روز ڈیرہ غازی میں بھی اس حوالے سے احتجاج کیا گیا۔ اس سے قبل نوشکی، دالبندین، کراچی اور اسلام آباد میں مظاہرے کیئے گئے جبکہ خضدار سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں مظاہروں کا اعلامیہ جاری کیا جاچکا ہے۔
مظاہرین کی جانب سے بلوچستان حکومت کو آن لائن کلاسز کیخلاف احتجاج کرنے والے طالب علموں کی گرفتاری پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔