بلوچ نیشنل ازم – میرین زہری

811

بلوچ نیشنل ازم

تحریر : میرین زہری

دی بلوچستان پوسٹ

سب سے پہلے یہ جاننا کے خود نیشنل ازم ہے کیا اور دنیاء کی کتنی فیصد اقوام نیشنلسٹ ہیں جو اپنے قوم سے محبت اور اسکے پہچان کو اپنانے سے قوم پرست کہلاتے ہیں اور اس میں حقیقی نیشنلزم کونسی ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کے کچھ ہی افراد کو چھوڑ کر دنیاء کے تمام انسان اپنی پہچان کسی زمین، کسی قوم اور زبان سے کرتے ہیں اور ان کچھ مخصوص افراد کے علاوہ وہ جو اپنی قوم، زمین سے محبت کرتے ہیں، اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہیں وہ نیشنلسٹ کہلاتے ہیں –

لیکن یہاں میں ذکر بلوچ قوم پرستی کا کرونگا کیوںکہ بلوچ سیاسی سماج میں نیشنلزم کے علاوہ دیگر کسی ازم کے لئے کوئی اسپیس نہیں رہتا، بلوچ نیشنلزم کو بلوچ قوم قومی نجات کے طور پر دیکھتی ہے، وقتی حالات کے مطابق یہاں کئی ازموں کو کار آمد لانے کے لئے متعارف تو کرایا جاتا ہے پر سب وقتی ہی رہ جاتے ہیں، بلوچ فطرتاً قوم پرست ذہن کا حامل سماج ہے اور بلوچ قوم نیشنلزم بلوچ کے وجود سے اسکے کلچر زبان رہن سہن سے پیدا ہوا ہے، جو کئی حوالے سے دیگر اقوام کے نیشنلزم سے مختلف رہا ہے –

مختلف کیسے؟

بلوچ نیشنلزم کسی حوالے سے نا تشدد پسند رہا ہے نا کبھی اپنے ہمسائے ممالک پر حملہ کرکے ان سے نفرت کا اظہار کیا ہے بلکہ بلوچ قوم نے ہمیشہ اپنی زمین، اپنی باؤنڈریز پر رہ کر صرف اپنی سرزمین اور قوم کی دفاع کی ہے، بلوچ کبھی جاکر کہیں بھی کسی قوم پر یا کسی سلطنت پر قبضہ یا لوٹ مار کےغرض سے حملہ آور نہیں ہوا بلکہ بلوچ قوم نے کہیں بھی جاکر قیام کیا، اپنی زبان کلچر کو مسلط کرنے کے بجائے وہاں کے زبان و کلچر کو اپنایا، جیسے آج عرب ممالک ہوں، افغانستان، سندھ، بلوچ جہاں بھی رہا ہے اس قومی شناخت کو اپنایا –

بلوچ نیشنلزم میں مذہبی شدت پسندی یا دینی نفرت کو کبھی خوش آمدید نہیں کہا گیا، جس کا واضح ثبوت بلوچستان میں تمام مذاہب کے اپنے عبادت گاہوں میں بے خوف اپنی مذہبی فرائض انجام دینا اور بلوچ سرزمین پر ہندو عیسائی شیعہ پشتون ہر رنگ نسل قومی یا مذہبی بنیاد پر اختلاف رکھنا کسی قوم دوست کا پروگرام نہیں رہا ہے حالانکہ بلوچوں نے اپنی زمین پر دوسرے قوم اور مذاہب پر ہونے والے ہر تشدد کی ہمیشہ مخالفت کی ہے –

قوم پرستی کو نسل پرستی سے تشبیہہ دینے والے کتنے فیصد سچے ہیں، بلوچ قوم کو اس سے غرض نہیں، بلوچ قوم پرستی اور دیگر دنیاء قوم پرستی میں واضح فرق ہمیشہ رہا ہے اور بلوچ قوم نے کسی بھی بنیاد پر اپنی سوسائٹی میں نسل پرستی کو بڑھاوا دینے کی ہمیشہ مخالفت کی ہے موجودہ دور میں بلوچ شناخت خود حملہ آوروں کے زد میں ہے، اسکے باوجود بلوچ نیشنلزم اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے صرف اپنی قومی دفاع کررہا ہے اور اس صورت میں ایک ازاد قوموں جیسی امیدیں بلوچ قوپرستی سے رکھنا نا انصافی ہے لیکن پھر بھی ہر حالت میں بلوچ قوم پرستی نے کسی کو ٹھیس پہنچانے سے گریز کیا ہے-

میں خود ایک قوم دوست طالب علم ہوں، میرے قوم دوست ہونے کی وجہ میری اپنی زمین اور شناخت سے محبت ہے، اسکے برعکس نوآبادیاتی نظام نے ہمارے سماج کو کتنے طریقوں سے متاثر کیا ہے لیکن تاریخی مطالعات اور بلوچ نیشنلزم کی تاریخ واضح کرتی ہے کہ بلوچ نیشنلزم ہی حقیقی انسان دوستی برابری اور ترقی پسندی کا پروگرام ہے اور بلوچ مزاج میں کسی پرائے ازم کو جگہ دینے کی کوشش صرف وقتی ناکام کوشش اور اپنی انرجی ضائع کرنے مترادف ہے –

ہمارے کچھ اہل دانش کہلائے جانے والے اور میرے کچھ سیاسی عزیزوں کا ہمیشہ گلا رہا ہے کہ قوم پرستی نسل پرستی ہوتی ہے اور وہ خود نسل پرست نہیں انکے لئے ایک دوست کے حیثیت سے صرف اتنا کہونگا کے جن ازم کے تم پاسدار ہونے کے دعویدار ہو انکی جنم جن خطے سے ہوا پہلے وہاں جاکر ان قوموں کے حالات دیکھیں کے وہ کس قدر تمھیں سونپے ہوئے نظریے کی پاسداری کررہے ہیں فقط کتابوں میں چار لائن پڑھنے سے سچ واضح نہیں ہوتا-

میرا انکیلئے مشورہ ہے کہ بلوچ نیشنلزم کو کسی سے سننے کے بجائے خود اسکا مطالعہ کریں اور اسے اپنے اردگرد محسوس کریں، یقیناً تم جس تلاش میں ہو وہ تمہاری اپنی قوم پرستی ہے اور بلوچ نیشنلزم ہی تمہارے مستقبل، برابری اور بہتری کا بہترین زریعہ ہے –


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔