بلوچستان کو درپیش نیا سیاسی بحران اور ہماری قومی و سیاسی ذمہ داری
تحریر: سعد دہوار
دی بلوچستان پوسٹ
یوں تو بلوچستان ہمیشہ سے سیاسی حوالے سے زرخیز اور نظریاتی سیاست کا امین رہا ہے، جس کا چھاپ پورے خطے میں روز روشن کی طرح عیاں ہے، ملک میں چاہے آمریت کا دور رہا ہو یا جمہوریت کا دور، بلوچستان نے اپنے اوپر کئے گئے جبر اور ناانصافیوں کے خلاف سر خم کرنے کے بجائے کمزور بدن لیئے چاک گریباں ظالم کی آنکھوں میں اپنی سرخ آنکھیں ڈال کر اس کا سامنا کیا ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے ظالم ہنوز بے چینی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔
بلوچستان میں سیاسی بحران کوئی نئی نہیں ہے، مگر اس کے ہئیت میں تبدیلی وقت اور حالات کے مطابق ہوئی ہے۔ اس نئے سیاسی بحران کا ابتداء سال 2017 میں شروع ہوا، جب پاکستان کے مرکزی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات تیز ہوئے اور یوں اس کا پہلا تجربہ بلوچستان سے کیا گیا۔ جب ن لیگ کے وزیراعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری کے خلاف اسی کے پارٹی کے باغی اراکین نے عدم اعتماد کے ذریعے ان سے زبردستی استعفی لیا۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ 18ویں ترمیم کی وجہ سے اب چونکہ ملک مارشلاء کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے لہٰذا اسٹیبلشمنٹ اپنے جدید شکل یعنی ہائبرڈ مارشلاء کے طور پرسیاسی حلقوں میں متعارف ہوا۔ 2017 میں کراچی اور حب چوکی کے مقام پر پیپلزپارٹی کی قیادت میں ن لیگی حکومت کے خلاف سازش کا پہلا تجربہ کیا گیا، جس میں اپوزیشن جماعتیں اور ن لیگی فارورڈ بلاک المعروف باغی گروپ شریک تھے۔ مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ اس سازش میں بی این مینگل جیسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بلوچ قوم پرست سیاسی جماعت بھی شریک تھی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سیاست کے مانے جانے والے تجربہ کار سیاستدان بھی مس کلکولیشن کا شکار ہوئے، جن باغی اراکین پر محنت کیا گیا وہ بجائے مذکورہ بالا جماعتوں میں شامل یا اتحادی بنتے انہوں نے راتوں رات جادو کی چڑھی کا سہارا لیتے ہوئے ڈرامائی انداز میں نا صرف نئی جماعت کا بنیاد رکھی بلکہ صوبائی حکومت بنانے سمیت سینیٹ کے چئیرمین بھی بن گئے اور حتیٰ کہ اس ناکامی کا اعتراف پیپلزپارٹی کی قیادت بھی ماضی قریب میں کرچکی ہے۔
اسی ضمن میں گو کہ بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل صاحب سے سیاسی غلطیاں ہوئی ہیں، جس کا خمیازہ آج ہم تمام سیاسی کارکنان بلوچستان میں بھگت رہے ہیں اور گذشتہ 3 سالوں میں بلوچستان کے مسائل میں کمی کے بجائے بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مگر دو سال بعد بی این پی مینگل کا مرکزی حکومت اور اس کے اتحادیوں سے علیحدگی کا فیصلہ خوش آئیند ہے چنانچہ دیر آئید درست آئید۔
اگر 2017 میں نواب زہری حکومت خاتمے کے وقت، 2 ووٹ جو اسے بچا سکتے تھے وہ انکے خلاف استعمال کرتے ہوئے بی این پی مینگل سیاسی کلکولیشن کے جوئے میں شریک نہ ہوتا، سینیٹ الیکشن، چئیرمین سینیٹ الیکشن، بجٹ 2018- 2019، چئیرمین سینیٹ عدم اعتماد، آرمی ایکٹ 2020 میں شریک نہ ہوتا تو شائد آج حالات کچھ اور ہوسکتے تھے۔ علاوہ ازیں لاپتہ افراد سمیت بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیئے آرمی چیف سے ملاقات کا ناغہ اور ایم این اے محسن داوڑ کے جبری گمشدگی بل پر اپنا پارلیمانی کردار ادا کرنے سے قاصر رہے۔
تاہم، بلوچستان کے نہایت مخدوش صورتحال اس وقت نئے سیاسی بحران کو جنم دینے پر گامزن ہے۔ جب سے نئی حکومت آئی ہے، بلوچستان کے طول و عرض میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حالات کو پھر سے خراب کردیا گیا ہے۔ سرکاری سرپرستی میں مسلح افراد پر مشتمل جھتے (مقامی زبان میں کارڈ ہولڈر ڈیتھ سکواڈ) پھر سے بڑی تعداد میں سرگرم ہوچکے ہیں، یہ پہلی دفعہ ہے کہ چادر و چاردیواری کا احترام تو درکنار اب ان سے بڑی تعداد میں بلوچ خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سانحہ ڈھنک، پنجگور اور دزاپ کے واقعے کے سامنے آنے کے فورا بعد پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔
بلوچستان کے وہ تمام علاقے جہاں ترقی پسند نظریاتی سیاسی کارکنان کا کھیپ موجود ہیں اور جہاں سیاسی زمین ہموار ہے وہاں بلخصوص جان بوجھ کر حالات خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ وہاں سیاسی سرگرمیاں منجمد ہوسکیں اور غیر سیاسی قوتوں کا راستہ ہموار ہوسکے۔ حکمران جماعت کے چھتری تلے غیر منتخب شخصیات کو علاقے کے منتخب رہنماوں پر حکومتی ترجیح دیا جارہا ہے۔
حالانکہ یہ طریقہ واردات اسٹیبلشمنٹ کا پرانا وطیرہ رہا ہے، مگر ایک نئی حکمت عملی اور ایک نئی شکل کے ساتھ اس عمل کو تیز کردیا گیا ہے تاکہ بلوچستان سے قوم پرستی کی سیاست کا کسی طرح سے بیخ کنی کی جاسکے، سیاسی کارکنوں کی خرید و فروخت کی گویا منڈیاں قائم کردی گئی ہیں تاکہ انہیں سیاسی طور پر کرپٹ کیا جاسکے۔
ہم بخوبی اندازہ لگا رہے ہیں کہ یہ سب کچھ بلوچستان کے حقیقی سیاسی قوم دوست جماعتوں کو دیوار سے لگا کر بلوچستان سے ترقی پسند قوم دوست سیاست کو ایک منصوبے کے تحت ختم کرنے کی سازش کے عمل کو تیز کیا جاچکا ہے، جیسا کہ راتوں رات ایک ڈرائنگ روم میں شام کے دعوت طعام کے موقع پر باپ پارٹی کا قیام عمل ہوا اور وہ قوم پرست سیاست کے اہم مرکز مکران سے بھی کامیاب ہوکر حکمراں جماعت بھی بن گئے۔
یہی وہ مختصر بیان کئے گئے حالات ہیں، جس کی وجہ سے سردار اختر مینگل اور اس کی جماعت شدید دباو کا شکار ہوا اور اسی لیئے انہیں بھی مجبوراً اپنی رائے جدا کرنی پڑی ہے۔
بلوچستان کی بڑی قوم پرست پارٹیوں میں نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کا شمار ہوتا ہے، ان دونوں قوم دوست جماعتوں سے بلوچ قوم کی امیدیں وابستہ ہیں، انہیں اپنے روایتی پچ یعنی سیاسی مزاحمت کی طرف واپس آنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان کے مجموعی حالات انتاہی مخدوش ہوچکے ہیں اور اس کے عتاب سے ہم بلوچ سیاسی کارکنان شائد کہ بچ سکیں، اگر یہ دونوں پارٹیاں اپنی روایتی سیاسی پچ کا دیر سویر ادراک نہیں کریں گی۔ بلوچستان کے وہ تمام علاقے جہاں سیاسی کارکنوں کا کھیپ موجود ہیں وہاں سیاسی گراونڈ کو ختم کرنے کے لیئے ایک منظم پالیسی کے تحت کشت و خوں کے لیئے گراونڈ تیار کیا جارہا ہیں جس میں قبائلی دشمنیاں، ہر گھر میں تین تین سردار پیدا کرنا اور جرائم پیشہ کارڈ ہولڈرز پیدا کرکے بلوچ کو بلوچ کے سامنے کڑا کردیا جارہا ہے جس کے ذریعے سیاسی کارکنوں کا راستہ روک کر بلوچستان کو غیر سیاسی قوتوں کے حوالے کرنے کی تیاریاں کی جارہی تاکہ بلوچستان کی آواز کو دبایا جاسکے۔
بحثیت سیاسی کارکن میرا ان دونوں بڑی قوم دوست سیاسی جماعتوں سے گزارش ہے کہ اس منظم سازش کے خلاف ملکر کمربستہ ہوجائیں اور اپنے سیاسی قومی فریضہ کو سرانجام دیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔
نوٹ: سعد دہوار بلوچ ایک سماجی و سیاسی شخصیت ہے، ان کا تعلق نیشنل پارٹی سے ہے، انہوں نے عالمی تعلقات عامہ (انٹرنیشنل ریلیشنز) میں ماسٹرز کیا ہوا ہے اور وہ خطے کے سیاسی و سماجی معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔