انجیرہ واقعہ
تحریر: سیم زہری
دی بلوچستان پوسٹ
انجیرہ واقعہ جس میں جتک قبیلے سے تعلق رکھنے والے تین افراد کا بہیمانہ قتل ہوا اور دو زخمی ہوگئے. یہ افراد بیلہ میں ہلاک ہونے والے جتک قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی ہلاکت کے بعد مرید جتک وغیرہ کے سامنے پیش ہونے اور اپنی صفائی دینے کی غرض سے آئے ہوئے تھے. انجیرہ کے اندر ایک گھر میں بیٹھے ہوئے تھے، جو مرید جتک والوں کے زیر استعمال تھا. پیشی پر آئے ہوئے جتک قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ سردار محمد علی جتک، اکبر جتک اور پروفیسر محمد عالم جتک، میر ممتاز جتک شامل تھے. مہمانوں کی چائے سے خاطر تواضع کی گئی اور اسی چائے میں نشہ آور مادہ گھول کر پلایا گیا اور نیم بے ہوشی کی حالت میں ان میں سے اُن پانچ افراد کو اٹھا کر گَڈ میدان کی طرف چل دیئے جو بیلہ سے آئے ہوئے تھے. گڈ میدان کے مقام پر پہنچ کر ان کو گولیوں سے بھون دیا گیا جن میں سے تین ہلاک اور دو زخمی ہوگئے. جبکہ دیگر بے ہوش معزز مہمانانِ گرامی ہوش سنبھالتے ہی اپنے دیگر ساتھیوں کو اپنے ساتھ نہ پا کر ایف آئی آر درج کرنے کی غرض سے سوراب کا رخ کیا. وہاں پہنچ کر انہیں پتہ چلا کہ ہمارے وہ ساتھی اب اس دنیا میں نہیں رہے. ایک بار پھر ایف آئی آر کاٹے بغیر واپس لوٹے اور گَڈ میدان سے لاشیں اٹھا کر اپنے گھروں کو لوٹے جہاں سے آئے ہوئے تھے.
یہ کہانی کا وہ رخ ہے جسے ہم اہلِ علاقہ اہلِ زہری سنتے ہیں. چونکہ ہم بے شعور لوگ ہیں. ہم غور و فکر سے عاری عقل سے پیدل اور دنیا سے نا بلد لوگ ہیں تو ہم کو کہانی کا یہی رخ ہی لبھا لیتا ہے. ہم کبھی زحمت ہی نہیں کرتے کہ جانیں در حقیقت یہ ماجرا کیا ہے؟
یہ واقعہ ان تمام واقعات کی ایک کڑی ہے جن کی گذشتہ کئی دہائیوں سے انجیرہ میں منصوبہ بندی پھر پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مکروہ کام جاری و ساری ہے. جبکہ اس سازش کو انجام دینے کے لیے گَڈ میدان بدوکشت کا مقام اس لیے موزوں ہے کہ یہ تحصیل زہری اور سوراب کا انتظامی حد ہے جو ایک طرف سوراب لیویز تھانے اور دوسری جانب زہری لیویز تھانے کے زیر انتظام علاقے میں واقع ہے اور دونوں تھانے کے اہلکار انجیرہ تخت نشین آقا کے جوتے سیدھے کرنے والے مرید ہیں. جن کو جو بولا جاتا ہے وہی کرتے ہیں. کس کی ایف آئی آر درج کرنی ہے کس کی نہیں. کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا. کس کو پکڑنا ہے کس کو دھکڑنا ہے یہ سب احکامات انجیرہ سے جاری ہونگے.
انجیرہ کے والی و وارث آقا نامدار سارا سال ادھر اُدھر گھوم پھر کر عید کے موقع پر اکثر انجیرہ آتے ہیں اور پھر ایک عید سے دوسری عید تک جتنے بکرے ہاتھ آئے ہیں، وہ عید پر انجیرہ پہنچ کر اپنا بھلی دان دے دیتے ہیں. زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پچھلے سال کی بڑی عید کی مثال لے لیں، جیسے ہی سردار ثناءاللہ زہری نے انجیرہ میں قدم رکھا تو دوسری جانب میر امان اللہ اپنے پوتے کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گئے. لیکن سردار ثناءاللہ انجیرہ میں قدم رکھنے سے پہلے کوئٹہ آرمی چھاونی سے ہو کر آئے تھے.
ستمبر 1986 (جب سردار ثناءاللہ نے اپنے بھائیوں کے ساتھ ملکر اپنے ہی بھائی سردار رسول بخش کو کوئٹہ میں قتل کیا تھا) سے لیکر حمزہ بوبک، وڈیرہ عزیز تراسانی، علی احمد جمالزئی اس کے بھائی یوسف جمالزئی، رسول بخش کے بیٹے بابو دودا خان سمیت جتک قبیلے کے افراد تک جتنے بھی لوگ قتل ہوئے ہیں ان میں دو چیزیں ہمیشہ مشترک رہی ہیں. ایک یہ کہ ان سب کو زرکزئی نے صلح و دوستی اور قرآن کے نام پر اپنے قریب بلایا ہے اور دوسرا یہ کہ مقتول خود کسی نہ کسی دور میں کسی نہ کسی طرح اسی سازشی ٹولے کا حصہ رہا ہے جو بعد میں قربانی کا بکرا بننے کے لیے خود چلا آیا ہے.
اپنا بلی دان دینے سے قبل وڈیرہ عزیز تراسانی بھی اسی انجیرہ کا چہیتا ہوا کرتا تھا، پھر ایک دن آقا نامدار کا موڈ خراب ہوا اور اِدھر وڈیرہ عزیز تراسانی لڑھک گئے. علی احمد جمالزئی والے بھی اسی زرکزئی کے در کے ٹکڑوں پر پلتے تھے پھر خود اپنے انجام کو پہنچے. وڈیرہ سبزل خان سلمانجو بھی کسی زمانے میں اس در کا درباری ہوا کرتا تھا. میروزئی قبیلے نے بھی اس بادشاہت کو سہارا دینے میں بہت سارا خون نچھاور کیا. امینو سمالانی کے بیٹے ایک ایک کرکے اس کی آنکھوں کے سامنے ٹپکتے گیے، حاجی محمد عالم جمالزئی بھی انجیرہ کا عبادت گزار ہوا کرتا تھا میراجی، شہول، بوبک سمیت زہری قبیلے سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد زرکزئی کے ایمپائر کو جاودان رکھنے کے لیے اپنی موت آپ مرتے گئے. خود یہی مقتول جتک قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کون ہیں؟ شاید ہمارے زہری کے لوگوں کا حافظہ درست نہیں ویسے یہ حاصل جتک، پسند عرف پسّو جتک وغیرہ کون ہیں؟ یہی لوگ تو ہیں جو ایک طرف طالبان اور دوسری طرف زرکزئی کے چیلے ہیں. وہ 2012 کے رمضان المبارک کے مہینے میں زہری میں طالبان جتک لڑائی آپ سب لوگ بھول گیے کیا.
خود سردار محمد علی جتک دو سال قبل اپنے بڑے بھائی شکر خان جتک کے پیٹھ پر پاؤں رکھ کر زرکزئی سردار کے ہاتھوں سے اپنے سر پر دستار سجانے کا جشن منا رہا تھا. پچھلے سال جب امان اللہ زرکزئی کا قتل ہوا تو پریس کانفرنس کے دوران سردار ثناءاللہ کے بغل میں سردار محمد علی جتک بیٹھے ہوئے تھے. اس سرداری رعب دھاب کی مدت بہت جلد ختم ہو کر رہ گئی. وہاں اپنے گھر میں دونوں بھائی تقسیم ہو گئے پھر قبیلے کو تقسیم کیا گیا اور اب انجیرہ میں رسوا ہو کر منہ لٹکائے سراپ پہنچ گیا. لیکن مجھے اس سازش میں سردار محمد علی جتک کا کردار بھی مشکوک لگ رہا ہے.
انجیرہ واقعہ کو لے کر بہت سے لوگ اور قبائلی روایات کے چیمپینز نے بہت دکھ رنج و غم کا اظہار کیا اور اس واقعہ کو قبائلی روایات کی منافی قرار دے دیا. لیکن سچ پوچھو تو بھائی میں اس واقعے سے انتہائی خوش ہوں اور مرنے والوں سمیت بے عزت ہونے والوں کے لیے مجھے زرہ برابر بھی دکھ نہیں ہوا. کیونکہ یہ لوگ آنکھیں دماغ سوچ بوجھ، علم رکھنے کے باوجود نسل در نسل ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی اسی دربار میں حاضری دینے جاتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہاں صرف رسوائی ہونا ہے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا. پھر بھی دوڑے چلے آتے ہیں. اور منہ کی کھا کر لوٹتے ہیں، کچھ زندہ کچھ مردہ.
کہاں کی روایات بھائی؟ تب آپ کی روایات کہاں تھے جب اسی انجیرہ سے وڈیرہ عزیز کی لاش دوگن کو روانہ ہوئی. یہ روایات تو اس وقت بھی روندے گئے جب سردار جتک کی پوتی کو میر زیب اور میر امان اللہ کے بیٹے عبید شلی نے ایک ہفتے تک چھپائے رکھا. کس دنیا میں رہتے ہو آپ لوگ. وطن غلام. وطن کے باسی غلام در پہ در، عورتوں کی عصمت دری، گمشدہ افراد، قومی شناخت داؤ پر لگی ہوئی ہے، زبان ثقافت کلچر سب مسمار ہو گئے ہیں آپ قبائلی روایات کی بات کرتے ہو. میں تو اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب آپ کے روایات کے سب سے بڑے امین و محافظ پارلیمانی سرداروں کا وہ چہرہ سامنے آئے جہاں پنجابی کے سامنے ماں اور بیوی کی گالی کھانے والے سردار شرم سے سر جھکائے کھڑے سن رہے ہوتے ہیں. میں اس دن کا شدت سے انتظار کر رہا ہوں کہ آپ لوگوں کے سرداروں کے وہ ویڈیوز لیک ہو جائیں جن میں وہ پنجابی کے سامنے ہاتھ باندھے سر جھکائے خاموشی سے گالیاں سن رہے ہوتے ہیں. جب یہ منظر بلوچ قوم کے سامنے آئے گا تو لوگ یار محمد رند کی اُس بے عزتی کو بھی بھول جائیں گے جب ایک پریس کانفرنس کے دوران عمران خان نے انہیں کرسی سے اٹھا کر بڑے بھائی کو اپنے بغل میں بٹھایا تھا. جب یہ منظر سامنے آئے گا تو لوگ اکیلے میں خود کو لعنت دیں گے کہ ہمارے سرداروں کی یہ اوقات رہی ہے اور ہم انہیں سر پر بٹھاتے رہے. خدا کرے کہ وہ دن جلد آ جائے جب پارلیمنٹ کی ایک سیٹ کے لیے آپ اپنے سرداروں کو پیٹ کے بل رینگتے پنجابی کے جوتے چاٹتے دیکھو لو.
بلوچ قوم کو دنیا کے سامنے ایک زندہ آزاد متحد اور مہذب قوم بننے کی راہ میں رکاوٹ ان قبائل کو ہی ختم ہونا چاہیے آپ ان فرسودہ قبائلی روایات کو بچانے کی بات کر رہے ہو. بلوچ قوم کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ اس روایتی نظام کا خاتمہ ہی وقت کی اشد ضرورت ہے. روایات آزاد قوموں کی ہوتی ہیں. غلام کی نہ کوئی حیثیت ہوتی ہے نہ ہی اس کے منہ سے روایات کی پاسداری کی باتیں اچھی لگتی ہیں. انگریزوں کے زمانے سے لیکر آج تک انہی سرداروں کے ذریعے غلامی ہی ہماری روایت رہی ہے. اندر سے پرانی کھوکلی عمارت کو باہر سے جتنی رنگ روغن کرو کوئی فائدہ نہیں. ویسے گذشتہ سال زیب سکندر زرکزئی کی برسی پر چاول کی ایک پلیٹ کے لیے بھوکوں کی طرح کھانے پر جھپٹنے، آپس میں دست و گریبان ہونے والے کم از کم قبائلی روایات کا رونا دھونا چھوڑ دیں تو اچھا ہے.
ہمارے خلق کے لوگ سالوں سے عید کا انتظار کرتے ہیں اور پھر جیسے ہی عید آتی ہے تو کم و بیش زہری کے ہر دیہات سے ایک ویگن لوڈ ہوکر انجیرہ جاتی ہے. حاضری لگاتے ہیں منہ ٹیڑھا کرکے ایک ٹرانسفارمر مانگتے ہیں پھر منہ لٹکائے واپس چلے آتے ہیں لیکن مجھے تو حیرت ہوتی ہے محمد عالم جتک جیسے لوگوں پر. ہمارے تباہ حال برباد معاشرے کا تعلیم یافتہ طبقہ ہے یہ. بی آر سی جیسے نامور تعلیمی ادارے کا سربراہ ابھی تک نیم بے ہوشی کے عالم میں کراہ رہا ہے. اس پرنسپل صاحب کے کالج میں زیر تعلیم طلبہ کیا سوچتے ہونگے. طلبہ کے اوپر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے کبھی یہ لوگ سوچتے بھی نہیں. البتہ ہم، محمد عالم جتک صاحب، رجسٹرار بلوچستان انجینیرنگ یونیورسٹی خضدار محمد خان جتک صاحب، ایکسئین عزیز میروزئی صاحب وغیرہ نے شھید فدا بلوچ کے ساتھ اور بعد میں ایوب جتک کے زمانے میں سیاست کے میدان میں چار قدم ساتھ چلے. زندہ باد مردہ باد بھی بولے. ہم لے کے رہیں گے آزادی سے لیکر تیرا باپ بھی دیگا آزادی تک چلاتے رہے. پھر ان دوستوں پر قسمت کی دیوی تب مہربان ہوئی جب مرکزی دوست خضدار سے کوئٹہ سیشن کرنے کے لیے روانگی سے قبل حکمت عملی کے تحت خضدار بس اڈہ سے سوار ہونے کی بجائے چککو باغبانہ پل کے نیچے سے سوار ہونے کی غرض سے بس پہنچنے سے پہلے وہاں پہنچ کر چھپ گئے تاکہ دشمن کی نظر سے بچ بچا کر بی ایس او کے سیشن میں حصہ لینے کے لیے کوئٹہ پہنچا جائے. اور اس خفیہ راز کا صرف انہی دو چار دوستوں کو پتہ تھا جو ابھی پاکستان کے زیر انتظام بائیس گریڈ کے آفیسر تعینات ہیں. لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے.
ہمیشہ کی طرح اس قتل و غارت گری کے اس واقعے کا نقصان بھی براہ راست بلوچ قوم کو اٹھانا پڑے گا. جتنے لوگ مریں گے سب بلوچ ہونگے. کمزور بلوچ ہوگا. پھر ہر کوئی سلاح بند ہوگا. جیسے شور پارود کے چاروں اطراف قبائلی جھگڑے پیدا کرکے دشمن نے بلوچ سرمچاروں کے لیے راستے سیل کردیئے. دشت گوران، نیمرغ، لجے، البت، خاران، سیاہ کمب، ماراپ، گدر سوراب میں ہر قبائلی خیراتی بندوق لیے بیٹھا ہے اور قبائلی دشمنی کا بہانہ بنا کر جنگ آزادی کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے.
انجیرہ کا ایریا ویسے ہی نو گو ایریا تھا، بدوکشت، بھپو، گزان ویسے ہی آقا کے زیر تسلط ہیں. ادھر ذالکان پہلے سے جمالزئی نے کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے. چشمہ کومبی رادھانی وڈیرہ خالو نے طالبان کے علاوہ ایف سی کو جہیز میں دے دیا ہے. مشک، دیزیری، ہناری، توتی، سپیلوو، سراپ کند کاشمی کو حاصل جتک میر قادر زرکزئی کے بھائی اسحاق زرکزئی اور طالبان نے پہلے سے آپس میں بانٹ لیا تھا اب ان میں بانزوزئی جتک بھی شامل ہوگا. وہاں زڑد جام نائب میرزا جبکہ گھٹ نورگامہ شابیگ زئی جگسور سوہندہ تا گنداوہ میر امان اللہ کے بیٹوں کے کنٹرول میں رہے گا.
اور اس طرح دشمن کا کام بہت ہی آسانی سے مکمل ہو گیا. وہ بیٹھ کر تماشا دیکھ رہا ہے اور یہاں سردار اور قبائل بلوچ قومی آزادی کا نام و نشان مٹانے پر تلے ہوئے ہیں. بہت کچھ حاصل کیا آپ لوگوں نے قبائلی روایات کے نام پر.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔