امریکہ طالبان امن معاہدے پر نئے شکوک و شبہات

165

اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کی انٹیلی جینس اطلاعات پر مبنی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے طالبان قیادت اپنے پیرو کارجنگجوؤں کو مسلسل یہی تلقین کر رہی ہے کہ پر اعتماد رہو، ہم اقتدار طاقت کے زور پر حاصل کر سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی مرتب کردہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ رکن ممالک شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں کہ طالبان امریکہ کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کی پاسداری کرنے کی نیت نہیں رکھتے۔ اس معاہدے کا مقصد تقریباً دو عشروں پر محیط افغانستان میں جنگ کا خاتمہ اور مستقل امن کا قیام ہے۔

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے نہ صرف حالیہ دنوں میں طالبان کے افغان فورسز پر حملوں کا ذکر کیا، بلکہ ان کے اندرونی پیغامات کا بھی حوالہ دیا، جن میں سخت گیر رویہ قائم رکھنے کی تلقین کی جاتی رہی ہے۔ طالبان کو اعتماد ہے کہ وہ طاقت کے بل پر اقتدار حاصل کر سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ خطرہ موجود ہے کہ وہ بین الافغان مذاکرات کو کسی نہ کسی وجہ سے اس وقت تک زیر التوا رکھیں گے جب تک بین الاقوامی فوجوں کا افغانستان سے انخلا نہیں ہو جاتا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان فورسز کی فضائی حفاظت امریکہ کی زیر قیادت بین الاقوامی فورسز کر رہی ہیں اور اسی وجہ سے طالبان فورسز بھرپور طور پر سرگرم نہیں ہیں۔ اسی لیے اچانک اور غیر متوقع انخلا کئی صوبوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اس وقت 21 اضلاع پر طالبان کا کنٹرول ہے، جب کہ افغانستان کے 60 فیصد حصے کے حصول کے لیے جدوجہد جاری ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان جنگجوؤں کی تعداد پچپن ہزار سے پچاسی ہزار کے درمیان ہے اور پندرہ ہزار سے زیادہ سہولت کار ہیں۔

نگرانی کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم نے یہ بھی لکھا ہے کہ طالبان 30 کروڑ سے لے کر ڈیڑھ ارب سالانہ تک کما رہے ہیں۔ ان کی اس آمدنی کے مختلف ذرائع ہیں، جن میں مقامی سطح پر ٹیکس اور منشیات کی ناجائز تجارت وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ طالبان کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک رکن ملک نے اطلاع دی ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے دوران بھی طالبان کا القاعدہ کے لیڈروں سے رابطہ رہا اور یہ ان سے ہدایات لیتے رہے۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے باوجود امریکہ کے اعلیٰ عہدے دار یہ توقع رکھتے ہیں کہ طالبان معاہدے پر قائم رہیں گے اور یہ کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔

افغانستان کے مفاہمتی عمل کے لیے اعلیٰ امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد کہتے ہیں کہ ہمارے لیے فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارے پاس ایک نگران گروپ ہے جو اس چیز پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ طالبان دہشت گردی کے حوالے سے اپنے وعدوں پر کس طرح چل رہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ پیش رفت ہو رہی ہے، لیکن ہم بدستور ان کی سرگرمیوں پر قریبی نظر رکھیں گے۔

امریکہ طالبان امن معاہدے کے تحت امریکہ جولائی تک اپنی افواج کی تعداد 8600 تک لے آئے گا۔