افسانہ چیخ سے چیخ تک – حسن ناصر | فضل یعقوب بلوچ

791

براہوئی ادب سے

افسانہ چیخ سے چیخ تک

تحریر: حسن ناصر
ترجمہ: فضل یعقوب بلوچ

صبح صادق کا وقت ہے، آسمان کے سینے پر چھائے بادل اپنی سرخی سے سورج کی آمد کی اطلاع دے رہے ہیں۔ وہ حویلی میں ادھر سے ادھر بے چینی سے پھر رہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ اس پر ایک عجیب خوف و ہراس کا غلبہ ہے۔ گویا زمین پھٹ کر اسے نگلنے والی ہو۔ اور دوپٹہ کبھی اس کے سر سے ڈھلک جاتا وہ دوبارہ اسے سر پر رکھ کر اس کا کونہ منہ میں دبا کر آسمان کو دیکھتی اور منہ ھی منہ میں غصے سے بڑبڑاتی اور دعا کے لئے ہاتھ بلند کر کے جیسے چیخ پڑتی اے اللہ! رحم کر ہمارے اوپر، ھمارے خاندان پر، گھر پر پتہ نھیں کیوں آج اس کی رنگت جیسے اڑ گئی ہو زرد کملایا ھوا چہرہ ۔ وہ اپنے بچے کو سکول کے لئے تیار کرتے ہوئے کہتی ہے کیا ایسا نھیں ہو سکتا وہ آج گھر پہ رہے ۔ ہماری آنکھوں کے سامنے۔
میں نے غصے سے کہا کیوں چھٹی کرے؟
تو اس نے کہا کہ کیوں جائے؟
میں نے پھر غصے میں کہا اگر نہیں جائے گا تو اس کی پڑھائی ضائع ہوگی

اس نے بے بسی سے ایک مرغی ڈربے سے نکال کر بچے کا صدقہ اتارا۔ اس کی ساری توجہ بچے پر تھی اسکول بھیجنے کے بعد تو گویا اس کی بے چینی اور بھی بڑھ گئی ۔ میں صبح سے اسے دیکھ رہا تھا، اب تو اس کی بے چینی نے مجھے بھی پریشان کردیا تھا کہ آخر گل خاتون کو کیا ہو گیا ہے وہ اتنی نڈھال کیوں ھو گئی ھے؟ دوپہر کے قریب تو اس کی بے چینی انتہا کو پہنچ گئی وہ بار بار جاکر دروازہ کھولتی اور پھر پلٹ آتی مجھ سے اس کی بے چینی دیکھی نھیں جارھی تھی اور پھرمیں نے اس سے پوچھا کہ اصغر کی ماں کیا بات ھے آج کیوں ایسے بے چینی سے گھر کے چکر کاٹ رھی ھو ۔ ادھر سے ادھر پھر رھی ھو کبھی آسمان کی طرف دیکھتی ھو اور خود سے ھی باتیں کرتی جا رھی ھو ایسی کون سی پریشانی تمھیں لاحق ھے؟

وہ کہنے لگتی ھے آج عجیب خوف و ھراس ہے، آج صبح مرغے کی اذان لگ رھا تھا جیسے الو بول رھا ھو آج کوئی مصیبت ھمارے گھر پہ نازل ھونے والی ھے ایک بہت بڑی آفت آنے والی ھے۔

ارے یہ سب تمھارا وھم ھے ۔ میں اسے تسلی دے رھا تھا ۔ آج بھی عام دنوں کی طرح ھے. وھی سورج ھے وھی آسمان ھے اور وھی خدا ھے ۔ تم نے کیا توہمات پال رکھے ھیں؟

سنو تو، آج کتے بھونک رہے ہیں، مجھے الہام ہورہا ہے، بس ہمارے گھر پر رحم ہو، آج سورج کی روشنی بھی مختلف ہے. سورج سوا نیزہ پر ہے. اس میں بڑی تپش ہے ایسا لگ رہا ہے کوئی آفت زمین کونگلنے کےلیے آرہی ھے .
یہ تمہارا وہم ہے اللہ خیر کریگا، ایسی کوئی بات نہیں، میں اسے حوصلہ دیتا جارہا تھا.
اس کی ایک ھی بات تھی، نہیں… نہیں،
کتوں کی آواز نہیں سن رہے؟
آج ہمارے شہر. میں کافی کتے جمع ہوچکے ہیں اور ہمارے کئی لوگ خون میں نہلا دیئے جائیں گے

اب مجھے اپنے بیٹے کےلیے پریشانی ہورہی ہے کہ وہ اسکول سے واپس آئے گا تو کتے اسے نقصان نا دیں اسی بات کے ساتھ ایک مرتبہ پھر دروازہ کی طرف جاتی ہے اورواپس آکر کہنے لگی، اٹھو تم اس طرح بے فکر بیٹھے ہو. ایسانہ ہو کہ یہ کتے میرے لال کو نقصان پہنچائیں؟
میں نے تھوڑے سخت لہجے میں کہا. یہ کیا صبح سویرےسے تم ایک ھی بات کی جگالی کر رھی ھو . اس کی چھٹی میں ابھی وقت ہے.
تم عورتیں بس وھم کیا کرتی ھو۔ کیا میراکچھ نہیں لگتا ؟
اس نے میری طرف غصے سے دیکھا اورکہا .
کیا کروں آخر ماں ہوں، درد سہا ھے اس کے لئے، میرے تو دل سے اگا ہوا پودا ہے میں کیسے افسردہ نہ ہوں؟ .
مجھے تو ایسا لگ رہا ہے یہ گل زمین خون کی پیاسی ہے. ہماری گھرپہ کوئی بڑی مصیبت آنے والی ہے. میں نے مزید سخت تر لہجے میں اسے کہا آفت تم پر آئے یہ کیا وہم شروع کر رکھا ہے.
میرے ڈانٹنے کی وجہ سے وہ غصے سے اٹھ کر چلی گئی.
اب اسکی باتوں نے مجھے بھی سوچنے پر مجبور کردیا.

اسکی اس طرح بے چینی اور حیرانگی سے میں بھی وہم کا شکار ہوگیا. اور میرے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا.دوسری طرف کتوں کے زور سے بھونکنے کی آوازوں نے آسمان سر پہ اٹھا لیا تھا.
اور اب ہم دونوں کی بے چینی مزید بڑھ رہی تھی

میں اٹھ گیا کہ جاکر اپنےبیٹے کو سکول سے خود ھی لے آؤں. اسی کے ساتھ ایک زوردار چیخ نے میرے کانوں سے ہوتے ہوئے میرے دل کو چھو کر میرے جسم میں ایک عجیب سی تھر تھراہٹ پیدا کردی. مجھے ایسے لگا کہ میری روح کو میرے جسم سے نکالا جارھا ہے.

میں لرزتا کانپتا ہوا باہر نکل گیا کہ آندھی و طوفان نے ہمارے گھر کو گھیر لیا تھا. اس گرد باد میں میرے بیٹے کا ہلکا عکس دکھائی دے رہا تھا. ہر طرف سے کتے اس پر منہ کھولے ہوئے تھے. اسکے چہرے کی رنگت یکسر تبدیل ہوکر زرد ہوچکی تھی اور اسکی آنکھوں میں ایک خوف وہراس نظر آرھا تھا. وہ اپنے دفاع کےلیے اپنا بستہ اِدھر اُدھر پھینک رہا تھا. لیکن ان خون خواروں نے اسکا بستہ ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا. اور اسکی کتابیں آندھی میں پنہ پنہ ہوچکی تھیں. جب اس نے مجھے دیکھا ایک مرتبہ پھر ایک اونچی اور زوردار چیخ کے ساتھ چلا کر مجھے بلایا. ابّا! مجھے ان کتوں سے بچائیں اب میں اُسکی طرف اور وہ میری طرف دوڑ رہے تھےان درندوں کے درمیان ہم مشکل اور مشقت سے ایک دوسرے تک پہنچے. اس نے یک دم ہی مجھے گلے لگایا اور میرے سینے سے چمٹ گیا.

میں چاہتا تھا کہ میرا سینہ پھٹ جائے اور وہ میرے سینے میں سما جائے تاکہ اس پر دنیا کی ظلم، زیادتی، درد و غم کاسایہ تک نہ پہنچ سکے.
کتے ہم دونوں پر منہ کھولے ہمیں کاٹ کھانے کی کوشش کررہے تھے.
اسی کشمکش میں اس کی ماں نے اپنے مادری جوش و جذبےسے ایک چیخ لگائی اور ہماری طرف دوڑی.
ہم دونوں اپنے بچے کو بچانے کی کوشش میں تھے. میں نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی کہ شاید مصیبت کے اس پہر کوئی ہماری زوردار چیخیں سن کر مدد کےلیے آجائے. لیکن امید کے برعکس ہماری یہ دھماکہ خیز چیخیں محلہ والوں کو جگانے میں ناکام رہیں . میں بذات خود انگشت بدنداں ہوگیا کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا، ان کے دل سے انسانیت رخصت ھو گئی ھے کہ ہماری درد بھری چیخوں سے تو آسمان پھٹنے کو ہے لیکن زمین والوں تک ہماری آواز کیوں نہیں پہنچتی؟

چاروں طرف اِن درندوں کا راج ہے، نصف دن کی روشنی میں انسانوں کی یہ غفلت مجھے اندر سے کھائے جارہی تھی.
میں دفاع کےلیے اپنے ہاتھ ادھر ادھرمار رہا تھا مگر ان درندوں کےدانت میرے جسم میں پیوست ہوکر مجھے خون میں لت پت کرچکے تھے. جب ہمارے خون کا ذائقہ انکی زبانوں پر لگاتو وہ مزید باولے ہورہے تھے. یہ کتے تو ہمارے گھر کی روٹی کھا کھاکر ہٹے کٹے، موٹے تازے ہوئے تھے، مگر نمک حرامی اور ستم ظریفی کی حد ہوگئی ہے کہ انہیں اپنے خیرخواہوں پر بھی یوں بے رحمی سے حملہ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہورہی تھی لیکن .
حیوان تو حیوان ہے؛ انسان کی انسانیت ختم ہوجائے تو وہ سب کچھ بھول کر درندہ بن جاتا ہے.

اب ہماری آنکھیں آسمان کی طرف اٹھی تھیں ، اے حفیظ ذات…! تُو ہماری پکار پر مدد کےلیے آجا. اب سب کتے ھمیں چبانے کی کوشش کررہے تھے، ہمارے بدن زخمی اور خون سے لت پت تھے .
میرے بچے کے کپڑے بھی ان درندوں نے ٹکڑے ٹکرے کر دیئے تھے
اب ہم اپنی مدد آپ کے تحت ان کتوں سے خود کو آذاد کرانے کی جدوجہد کررہے تھے.
مگر یہ اتنے باولے ہوچکے تھے کہ انسانی خون کےپیاسے ہوکر اپنے دانت تیار کرچکے تھے.
نہ جانے کتنی مشکل سے ہم نے انکے قبضے سے خود کو آزاد کرایا اور گھر میں داخل ہوئے میں نے جھٹ سے دروازہ بند کردیا. مگر انکی زوردار غراھٹ جاری تھی وہ دروازے پرایسے حملہ آور تھے جیسے ابھی دروازہ گرجائےگا .

آج اس سانحے کو 40 برس سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا یے. وقت کی نشانیاں میرے چہرے پر موجود جھریوں کی شکل میں واضح ہیں. میری داڑھی کے نصف سے زائد بال اب چاندی کے تاروں کی طرح سفید ہوگئے ہیں . روزانہ کے انتظار، کرب اور پریشانی کی وجہ سے میری شریک حیات کی کمر جھک گئی ہے

مگر ان سب کے بر عکس ہمارے مادر پدری جوش و ولولے اب بھی جوان ہیں، اب بھی ہمارے لیے وہ ہماراسات سال کا بیٹا اصغر ہے
آج تین سال سال ہورہے ہیں وہ ہماری نظروں سے اوجھل اور لاپتہ ہے، اسکی کوئی خبر نہیں ہے کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں؟
لیکن اس کا انتظار ہمیں ہر روز ہر ساعت ماررہا ہے. آج بھی جب فضا میں کتوں کی آواز گونجتی ہے تو ایک مرتبہ پھر ہمارے زخم تازہ ہوتے ہیں. ایک زوردار چیخ میرے کانوں پر پڑ کر کر میری روح کو لرزا دیتی ھے . ایک مرتبہ پھر میں اپنے بے چینی کے ھاتھوں مجبور ھو کر اپنی کمزوری کو بھول کراسکی تلاش میں باہر جاتا ہوں. جب باہر کچھ نظر نہیں آتا ہے تو میرے جگر گوشے کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ھے۔

بے بسی اورلاچاری سے میرا وجود اندر سے چور چور ہوجاتا ہے جب میرے کانوں میں زوردار چیخ کی آواز آتی ہے. ابّا….! “مجھے ان کتوں سے بچائیں”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔