احتجاجی مظاہرے اور خوفزدہ قوتیں – نادر بلوچ

286

احتجاجی مظاہرے اور خوفزدہ قوتیں

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ سرزمین پر کوئی ایسا دن نہیں گذرتا، جب ریاستی عتاب نازل نہ ہو، بلوچ وطن ایک مفتوحہ علاقہ ہے۔ جسکی تاریخ بلوچستان کی جبری الحاق سے شروع ہوتی ہے۔ اس تاریخی پس منظر سے ہٹ کر یا اسکو نظر انداز کرکے بلوچستان میں جاری شورش، سیاسی و سماجی طور پر وقوع پذیر ہونیوالی تبدیلیوں کو سمجھنے کا دعویٰ کرنا غیر دانشمندانہ اقدام ہوگا۔ بلوچستان میں سیاسی بے چینیوں کی تاریخ طویل ضرور ہے، مگر اسکو سمجھنے کیلئے تاریخ سے آگاہی ضروری ہے۔ ریاست، بلوچستان کی سرزمین کو قبضہ کر چکی ہے لیکن اس وطن کے غیور فرزندوں کو اب تک زیر کرنے میں ناکامی کا سامنا کررہی ہے، اسکی وجہ سیاسی دفاع و بلوچ مزاحمتی سوچ کا بلوچ نیشنل ازم پر استوار نظریہ ہے۔ ریاستی جبر کا پیمانہ دنیا میں جاری قومی سوال کی حل کی جاری تحریکوں کی نسبت بلوچستان میں اپنی آخری حد چھو گئی ہے۔

بلوچ نیشنل ازم کی بنیادوں کو مظبوط و توانا کرنے میں ریاستی جبر نے دورس اثرات مرتب کیئے۔ تجربات و مشاہدات کے سیکھنے و سمجھنے کیلئے ریاست نے مظالم کی انتہاء کرکے مسخ شدہ لاشوں، پھانسیوں، طویل گمشدگیوں کی صورت میں بلوچ عوام کو دیئے، بلوچ سیاسی و نظریاتی قوم پرست کارکنوں کے سامنے ایک سرخ لکیر بنا کر پیش کردیا گیا کہ حقوق، ساحل و وسائل،نیشنل ازم کو بنیاد بنا کر قومی سوال کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرو گے، اسکا مطلب ریاستی قبضہ گیریت کیلئے چیلنج لیا جائے گا۔ جبر سے خوف قائم کرنے کی کوشش ہمیشہ ریاستی ہتھیار رہا ہے۔ جو سیاسی کارکن اور تنظیمیں اس سرخ لکیر کو پار کرنے کی سیاسی داو پیچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں وہ تاریخ میں سرخروہوتے ہیں۔

بلوچستان میں جاری شورش روکنے، قبضہ گیریت کو دوام دینے، وسائل لوٹنے کیلئے ریاست اپنا سب سے موثر اور آخری ہتھیار خوف کو استعمال کررہا ہے۔ یہ حربہ ریاست سے متوقع تھی لیکن ریاست اسکا استعمال ڈیتھ اسکواڈز کو درندگی کے لائسنس دیکر تحریک کے شروع میں استعمال کرگیا، اس بیوقوفی کی ریاستی پالیسی سازوں سے امید نہیں تھی، شاید طاقت کے غرور اور گھمنڈ نے اسٹیبلیشمنٹ کی پالیسی سازوں کے دماغوں کو شل کردیا تھا یا ہمسایہ ملک کی جانب سے کشمیر پالیسی کو کامیابی سمجھ کر اسکا استعمال بلوچستان کو خاموش کرنے کیلئے کیا گیا لیکن ریاست یہ بھول گئی کہ ڈیتھ اسکواڈز کا استعمال بلوچ مزاحمتی فکر کو مظبوط کریگی کیونکہ اس سے سیاسی کارکنوں کو نظریہ قوم پرستی اپنانے اور مزید سمجھنے کی آسانی ہوجائیگی۔ خوف کی لکیر کو پار کرنے کیلئے انکو سرخ لکیر کی انتہاء معلوم ہوجاتی ہے، اسکے آگے عقوبت خانہ یا شہادت ہے یہ دونوں تو محکوم قوم کو اپنی منزل کی جانب لے جاتی ہیں، قربانی کے فلسفے کو فروغ ملتی ہے۔ نظریاتی کمٹمنٹ کیلئے سیاسی پارٹیاں اور تنظیمیں سرکل منعقد کرکے سالوں ایک سیاسی کارکن کی تربیت کرتی تھیں، اب ریاستی جبر ایک سیاسی کارکن کا مسخ شدہ لاش، ایک روتی بلکتی بہن کے آنسو، سیاسی کارکن کو سرخ لکیر پار کرنے کی دعوت دیکر نظریاتی پختگی کی وجہ فراہم کررہی ہیں۔

ریاستی بربریت، عارضی خاموشی اور نئی صف بندیوں کے دورانیئے نے خوف زدہ و فکری طور پر کمزور نظریوں کی بزدلی و خوف پر مبنی اس سوچ کو جلا بخشی کہ ریاست مضبوط ہے یا اس کے سامنے احتجاجوں میں سرخ لکیر کو پار نہ کی جائے بلکہ ریاستی ڈیتھ اسکواڈز کے ہتھیار کو خاموش رکھنے کیلئے مبہم سیاسی نعرے ایجاد کی جائے۔ بلوچ قوم کی برمش بلوچ کیلئے اٹھنے والے آوازوں نے ریاست اور غیر فکری اور کمزور طبقاتی سیاست کے بچاریوں کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ انکے خوف سے متاثر نظریات کو بلوچ نیشنل ازم کی مظبوط و ثابت قدم نظریئے نے شکست دیکر پھر سے ریاستی کارندوں کو للکارا ہے کہ لاشوں اور کفن کا تحفہ دیکر ایک قوم کو خاموش نہیں کی جاسکتی۔

ایک سوچ جو بلوچ قومی فکر کو کمزور پیش کرنے میں درپیش ہے، انکا تعلق یا سوچ سوشل ازم کے کمزور سیاسی نظریہ سے متاثر لگتا ہے، یہ بزدلی، فکری پسپائی کو کامیابی سمجھتے ہیں، متحرک اور بے خوف سیاسی فیصلے انکو خوفزدہ کرتے ہیں۔ ریاستی چھاونی اور بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈز کے مرکز خضدار میں بلوچ نوجوانوں کے کامیاب سیاسی اظہار نے ایسے بھٹکے نظریات سے متاثر دماغوں میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ جن احتجاجی مظاہروں نے کمزور فکر کی نشاندہی میں مدد دی ہے، ایسی احتجاجوں نے ریاستی ایوانوں میں کتنی ہلچل پیدا کی ہوگی، اسکا اندازہ سیاسی تجزیہ کار بہتر محسوس کررہے ہونگے، بلوچستان بھر میں کامیاب ریلیوں کا انعقاد سیاسی و سماجی کارکنوں، کامیابی اور بلوچ عوام کی جرئت مندانہ شرکت قابل تحسین ہے۔

سیاسی فکر کی کامیابی یہ ہے کہ وہ سماج کو ریاستی عتاب سے غافل ہونے نہ دے۔ احتجاج، ریلیاں، سیاسی جہد کے ذرائع ہیں ریاست ان ذرائع کو مقفود کرنا چاہتی ہے۔ جو سیاسی فیصلہ اس جمود کو توڑنے میں کامیاب ہوتی ہے، وہ کامیاب فیصلہ مانا جاتا ہے، یہ قومی سوچ و فکر کو زندگی فراہم کرتی ہے۔ ریاستی مظالم ہر تحریک کا حصہ ہوتی ہیں لیکن سیاسی مزاحمت کے سامنے ایک دن یہ ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ مزید منظم ہوکر کمزوریوں کو پار کرنا دانشمندانہ اور نظریاتی مضبوطی کی نشاندہی ہے۔ نیشنل ازم ایک جہد مسلسل ہے یہ خوف اور جبر سے خاموش نہیں کی جاسکتی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔