آن لائن کلاس اور محروم سماج تحریر۔ نوید بلوچ

294

آن لائن کلاس اور محروم سماج
تحریر۔ نوید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک کویڈ-19 جیسے عالمی وباء سے لڑنے اور اپنے معاشی سماجی اور تعلیمی ڈھانچے کو بچانے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں اور اس عالمی وباء کو مات دینے کیلئے نت نئے طریقوں پر عمل پیرا ہیں تاکہ اس عالمی وباء سے اِن ممالک کو جن مسائل اور بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مستقبل میں اِنکا ازالہ آسانی سے ممکن ہوسکے۔ سرفہرست ہمیں زیادہ تر مثالیں اُن ممالک کی ملتی ہیں جو سُپر پاور اور ترقی یافتہ ممالک ہونے کے ساتھ ساتھ ٹینکالوجی کی دوڑ میں ہمیں کوسوں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ یہی وجہ ھیکہ یہ ممالک اس عالمی وباء کو مات دینے میں اس وقت کسی حد تک کامیاب مانے جاتے ہیں۔

کوویڈ-19 کی تدارک کیلیے اِن کے اٹھائے گئے اقدامات بلاشبہ دنیا کیلیے روشن مثال ہیں۔ ان اقدامات میں سے ایک آن کائن کلاسوں کا ہے جس کے ذریعے طلباءو طالبات گھر بیٹھے اپنا تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ تعلیمی میدان میں ترقی یافتہ ممالک کا یہ اقدام طلباء و طالبات کیلئے مفید ثابت ہوگا جس سے گھر بیٹھے لاکھوں طلباء وطالبات مستفید ہوں گے۔

آن کلاسس کے اجراء کا مطلب سوشل ڈسٹنسگ (سماجی دوری) برقرار رکھتے ہوئے تعلیمی سفر جاری رکھنا ہے، مگر وائے قسمت کہ اس جدید سائنسی ترقی ٹیکنالوجی کے دور میں بلوچستان کے طلباء اس سے مستفید ہونے کی بجائے مزید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے تقریبا تیرہ اضلاع میں سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر گزشتہ چار پانچ سالوں سے انٹرنیٹ کی سہولت منقطع ہے۔ ایسے میں ایچ ای سی کی طرف سے آنلائن کلاسوں کے اجراء سے بلوچستان کے طلباء بجائے مستفید ہونے کے مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور سمسٹر ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ ایسے میں بلوچستان کے طلباء ایچ ای سی کے اس غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ جس سے بجائے سوشل ڈسٹنسنگ کے بلوچستان کے مختلف علاقوں جیسے کہ تربت آواران خضدار قلات وغیرہ سے طلباء بہ حالت ِ مجبوری اجتماعات کی شکل میں جمع ہو جاتے ہیں۔ گو حکومت کے وضع کردہ ایس او پیز پر عمل کی جارہی ہے تاہم بھیڑ کی وجہ سے انکے اور دوسروں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو اس غیر یقینی صورتحال میں ہائیر ایجوکشن کمیشن کا کردار مسلسل متنازعہ رہا ہے کے پی گلگت بلتستان کے طلباء بھی اس ناروا سلوک اور غیر منصفانہ عمل کے خلاف بڑی تعداد میں طلباء سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور ان غیر منصفانہ اقدامات کہ خلاف احتجاج ریکارڈ کروارہے ہیں۔

طلباء کسی بھی سماج کی ریڑھ کی ہڈی مانے جاتے ہیں یہ وہ طبقہ ہے جو کسی بھی سماج کے مروجہ نظام کو پڑھنے سمجھنے اور اس کا مستقبل طے کرنے والا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے آج یہ طبقہ مایوسی کے عالم میں اپنے ہی مستقبل کیلئے پریشان اور کہیں خدشات لیئے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ نہ صرف انکا مستقبل بلکہ ان سے وابسطہ انکے سماج کا مستقبل بھی داو پر لگی ہوئی ہے۔

اس “پینڈیمک”صورتحال میں ایک طرف دنیا طلباء گھر بیٹھے آسانیاں مہیا کرنے کی کوششوں میں ہے تو دوسری جانب بلوچستان گلگت بلتستان اور فاٹا کے طلباء و طلبات کو خدشہ ھیکہ وہ آن لائن تعلیم جاری نا رکھنے اور انٹرنیٹ کی عدم موجودگی کے باعث اس تعلیمی سال سے محروم ہوں گے ۔ ایچ ای سی کے کیئے گئے اقدامات بجائے آسانیوں کے طلباء کیلئے مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ بلوچستان سمیت ملک دوسرے صوبوں کے مختلف علاقوں میں جاری احتجاج ایچ ای سی کے ناکام پالسیوں کی عکاسی کرتے ہیں ۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایچ ای سی نے بلوچستان، فاٹا، گلگت بلتستان کے زمینی صورتحال کو مد نظر رکھ کر آن لائن کلاسسز کا فیصلہ لیا؟ کیا اب اس پینڈیمک صورتحال میں پسماندہ علاقوں کے طلباء و طلبات کو پڑھنے کا کوئی حق نہیں ؟ “بننے” (Becoming) کے پروسیس میں ایچ ای سی کی تعلیم دشمن پالسیاں بلوچستان طلباء کے سامنے سوالیہ نشان کی صورت اختیار کرچکی ہیں ہم کیا ہیں اور کیا ہونگے؟

ایچ ای سی کے اقدامات گلگت بلتستان ۔ سندھ فاٹا اور بلوچستان کے طلباء پر یہ واضح کر دیتی ھیکہ وفاق اور اسکے ذیلی ادارے کسطرح چھوٹے صوبوں کیلیے پالیسیاں مرتب کرتے ہی اور ازخود ان پر عملدرآمد کرواتے ہیں۔

اس صورتحال میں بلوچستان کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے طلباء و طلبات خود کو نامکمل محسوس کرتے ہیں۔ اور یہی حقیقت ہے کہ مایوسی اور محرومیوں کا ازالہ نہیں ہوپارہا ہے۔ اس جیسی حالات سے بلوچستان کے طلباء کئی بار گزر چکے ہیں۔یہ محرومیاں مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں ابھرتی رہی ہیں۔ ایچ ای سی کای آن لائن کلاسس کا اجراء اس پالیسی کی ایک کھڑی ہے۔ وفاقی حکومت اور ایچ ای سی کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے پی اور گلگت بلتسان کے طلباء کے مسائل اور وہاں کے معروضی و زمینی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں مرتب کرے۔ اور انکے نفاذ سے پہلے صوبائی حکام سے کم از کم مشاورت ہی کرلیا کریں۔ صرف اسی صورت میں ہی اسطرح کی بحرانی صورتحال سے بچا جاسکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔