آن لائن کلاسز کیلئے سہولیات بھی فراہم کرے – پسنی مظاہرین

151

بلوچ اسٹوڈنٹس پسنی کی جانب سے سنگت ہزاران بلوچ کی سربراہی میں آن لائن کلاس کے خلاف پسنی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ جس میں ملک بھر کے مختلف کالجز اور یونیورسٹیوں کے زیر تعلیم طلبہ نے شرکت کی۔

احتجاجی مظاہرے سے سنگت ہزاران بلوچ، زرینہ حسن، ماہ نور، صباء بلوچ، شاہ نزر بلوچ، میران عصاء، عدنان بزنجو، اللہ داد بلوچ اور الیاس اللہ بخش نے خطاب کیا ہے۔

سنگت ہزاران بلوچ نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ملک کے تمام کالجز، یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاس شروع کردی گئیں ہیں اور آن لائن کلاسز انٹرنیٹ سروس کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتے جبکہ بلوچستان کی حالت یہ ہے کہ یہاں انٹرنیٹ کی کوئی سہولیات موجود نہیں اور ایک موبائل کال کے لیے لوگوں کو پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔

اُنہوں نے بتایا کہ صرف بلوچستان نہیں، اندرون سندھ، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور اندرون پنجاب بھی یہی حالت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ HEC کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرے۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور، اسلام آباد، کراچی اور ملک کے دیگر بڑے بڑے تعلمی اداروں میں صرف وہاں کے اسٹوڈنٹس نہیں پڑھ رہے بلکہ بلوچستان کے دیہی علاقوں کے بچے اور بچیاں بھی زیر تعلیم ہیں اور یہ بچے اور بچیاں آٹھ سو نو سو کلو میٹر طویل سفر کرکے پڑھنے جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ HEC کے فیصلے کو ہم مسترد کرتے ہیں یہ طلبہ کے ساتھ مکمل زیادتی ہے۔ HEC کا کہنا ہے کہ طالب علم اپنا سمسٹر فریز کردیں یہ تعلیم دشمن پالیسی ہے۔ بلوچستان گورنمنٹ کو چاہیے کہ آن لائن کلاسز شروع کرنے سے پہلے بلوچستان بھر میں انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کردے۔ اگر انٹرنیٹ پہنچا سکتے تو آن لائن کلاسز کو فوری طور پر معطل کردے۔ یہ امر بھی باعث شرم اور ظلم ہے کہ کالج اور یونیورسٹی بند ہیں اور آن لائن کلاسز بھی نہیں ہیں لیکن طالب علموں سے فیس لیے جارہے ہیں۔