آنسوؤں سے تر دوپٹے
ٹی بی پی اداریہ
اگر ایک لمحے کیلئے فرض کیا جائے کہ بلوچستان میں جاری تحریک ستر سال پرانی نہیں ہے اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ نصف صدی سے جاری نہیں ہے، اور ان سب کا ابتداء محض اسی صدی کے آغاز سے ہوا ہے، تو پھر گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان کا حاصل کیا ہے؟
اسی صدی کے آغاز سے ہی بلوچستان میں ایک سال بھی ایسا نہیں گذرا ہے، جس میں بلوچ جبری گمشدگیوں کے کلفت سے نہیں گذرے ہوں۔ معلوم اعداد و شمار کے مطابق علی اصغر بنگلزئی وہ پہلے بلوچ ہیں جنہیں 2001 میں مبینہ طور پر پاکستانی افواج نے کوئٹہ سے جبری طور پر اغواء کرکے لاپتہ کردیا، اور یہی وہ پہلا موقع تھا کہ کسی لاپتہ بلوچ کی تلاش میں اسکے رشتہ داروں کا غمزدو چہرہ پریس کلبوں اور روڈوں پر نظر آیا۔
علی اصغر بنگلزئی کی گمشدگی کو آج 19 سال ہوچکے ہیں، اور یہ علی اصغر کے بھتیجے نصراللہ بلوچ ہی تھے، جس نے لاپتہ بلوچوں کیلئے احتجاج کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی بنیاد ماما قدیر سمیت دوسرے لواحقین کے ہمراہ ڈالی اور وہ اس تنظیم کے چیئرمین بھی ہیں۔ اس تنظیم کے رسمی قیام کو 11 سال ہوچکے ہیں، اور یہ گذشتہ گیارہ سالوں سے بلا ناغہ ہر روز احتجاج کررہی ہے، گوکہ اسکے کارکن غیررسمی طور پر 2001 سے ہی سراپا احتجاج ہیں۔
کسی بلوچ سیاسی کارکن کے جبری طور پر گمشدہ ہونے کے بعد اسکے لواحقین اس امید کے ساتھ کوئٹہ پہنچ جاتے ہیں کہ بلوچستان کے سب سے بڑے پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے کے بعد انکی آواز کہیں تک پہنچ جائیگی اور انکے پیاروں کو منظرعام پر لایا جائیگا۔ پریس کلب کے سامنے بلوچ خواتین و بچے آنسو بہاتی نظر آتی ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ کی اپنے والد غفار لانگو کیلئے آنسو، جسے مہینوں لاپتہ رکھنے کے بعد مسخ شدہ لاش کی صورت گڈانی میں پھینک دیا گیا، سیما بلوچ کی اپنے بھائی اور بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجمان شبیر بلوچ کیلئے آنسو، جو اب تک لاپتہ ہے۔ ذاکر مجید کی والدہ کو اب روتے ہوئے ایک دہائی سے زائد ہوچکا ہے، جس کے بیٹے کو 2009 میں لاپتہ کیا گیا تھا۔ انسہ بلوچ کے وہ نایاب آنسو، جو اسکے بھائی کو واپس لے آئے تھے اور آنسو بہانے کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس پریس کلب کے سامنے کئی بلوچ خواتین و بچے آنسو بہاکر مایوس لوٹ کر جاچکے ہیں، اور روز کچھ نئی امید کے ساتھ آتے ہیں۔
8 جون کو ایک اور بلوچ بہن حسیبہ قمبرانی کی دل دہلادینے والی اپیل اور بہتے آنسوؤں کو سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں سب نے دیکھا۔ اسکی کہانی ابتک ماہ رنگ بلوچ کے ٹائم لائن پر پانچ لاکھ اور اولا مندوخیل کے ٹائم لائن پر دو لاکھ بار دیکھی جاچکی ہے۔ یہ اعدادو شمار محض سماجی رابطوں کے دو ویب سائٹوں کے دو اکاونٹوں کی ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انکی فریاد کتنی دور پہنچی ہے۔
حسیبہ کے آنسو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے دو دہائیوں سے جاری آنسوؤں کے سیل رواں میں مزید چند ایک قطرے ہیں۔ یہ دوسری بار ہے کہ حسیبہ اسی مقام پر انصاف کیلئے رو رہی ہے۔ اس سے پہلے وہ 2015 میں اپنے بھائی سلمان قمبرانی اور کزن گزین قمبرانی کیلئے روتے ہوئے انصاف مانگتی رہی، جب انہیں مبینہ طور پر پاکستان کے خفیہ اداروں نے لاپتہ کیا تھا۔ گزین و سلمان ایک سال تک لاپتہ رہے اور پھر اگست 2016 میں انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں۔
حسیبہ کو چار سال بعد دوبارہ بہتے آنسوؤں اور لرزتی آواز کے ساتھ اس پریس کلب کے سامنے لوٹنا پڑا جب انکے بچے ہوئے بھائی حسان قمبرانی کو ایک اور کزن حزب اللہ بلوچ سمیت فروری 2020 میں خفیہ اداروں نے اغواء کرکے لاپتہ کردیا۔ اب اسے یہ خوف لاحق ہے کہ انکا انجام بھی گزین و سلمان سا نا ہوجائے۔ تاہم اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم کے دفتر سے اب حسیبہ سے اس مسئلہ پر رابطہ کیا گیا ہے، لیکن آزاد ذرائع سے اس بات کی ابتک تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ کس نے رابطہ کیا ہے اور انہوں نے کیا یقین دہانی کرائی ہے۔
بلوچستان کے گذشتہ دو دہائیوں کی داستان کو تین فقروں میں بیان کیا جاسکتا ہے، جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشیں اور آنسوؤں سے تر دوپٹے۔