ہم کہیں بھی محفوظ نہیں
تحریر : امین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ساجد حسین کی جبری گمشدگی اور شہادت نے کئی سوالات اور خدشات نے ذہن میں جگہ بنانی شروع کردی ہے کہ کیا غلام قوم کہیں بھی محفوظ نہیں ہے؟ کیوں ایک مظلوم قوم کو جینے کی آزادی نہیں دی جاتی؟ کیوں ایک صحافی کو سچ بولنے اور حقیقت کو بیان کرنے پہ موت کی سزا دی جاتی ہے؟ کیا اب جبری گمشدگی بیرون ممالک میں سیاسی پناہ پہ مجبور بلوچ قوم کے فرزندوں کو وہاں بھی جکڑ لے گی؟ کیا مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ بیرون ممالک بھی شروع کیا جائے گا؟ کیا اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اتنےناکارہ ہوچکے ہیں کہ ایک ریاست کے عسکری ادارے کو دیگر ملکوں میں دہشت گردی کی کاروائی کو سر انجام دینے میں روک نہیں سکتے؟ کیا انتہاء پسندی سے متاثر مجبور و مظلوم قوم سکھ کا سانس لے سکیں گے یا یونہی قتل کردئیے جائیں گے؟ ساجد حسین کی شہادت کے بعد اگلا شکار کون ہوگا؟
سوالات و خدشات تو کئی ہیں لیکن اب بلوچ سیاسی قیادت کی آئندہ حکمت عملی کیا ہوگی کہ وہ بلوچ مہاجرین کی حفاظت کے لئے دیگر ملکوں سے سفارتی بنیادوں پہ تعلقات استوار کرکے انہیں محفوظ بنانے کی جدوجہد کو حتمی شکل دے سکیں۔
سیاست سے جڑے افراد اس بات سے واقف ہیں کہ دنیا میں شدت پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں اور اس شدت پسندی سے متاثرہ ملکوں کے مظلوم عوام چاہے وہ اپنے ملک میں ہو یا غیر ممالک میں محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اور دوسری بات سیاست میں ضمیر،اخلاق کی کچھ حیثیت نہیں اصل طاقت طاقتور ہونا ہے۔اصل طاقت ظالم کا جواب ظالم کی طرح دینا ہے۔
اس سوال کا جواب ہر بلوچ فرزند جانتا ہے کہ ساجد حسین کو کیوں اور کس نے شہید کیا تھا؟ یہ وہی لوگ ہیں، جنہوں نے بلوچستان کو مقتل گاہ میں تبدیل کیا۔ یہ وہی لوگ ہیں، جنہوں نے ساجد کو پناہ گزین بننے پہ مجبور کیا۔ یہ وہی درندے ہیں جو ہزاروں لوگوں کے قاتل ہیں۔
بلوچ فرزند کہیں بھی محفوظ نہیں، بلوچستان، کراچی، پنجاب، خیبرپختونخوا ہر جگہ بلوچ پہ گھیرا تنگ ہے اور اب بیرون ممالک بھی بلوچ کی جبری گمشدگی کے واقعات اور قتل عام کا آغاز کیا جاچکا ہے، جو بلوچ قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
ساجد تو وطن دوست تھا، قوم دوست تھا، کہیں بھی رہا قوم کی فلاح و بہبود اور تحریک کے لئے کام کرتا رہا، وہ سچا صحافی تھا، جنہوں نے سچ کو عیاں کرنے کے جرم میں جلاوطنی برداشت کیا۔ اپنے معصوم بچیوں کو کم سنی میں چھوڑ کر قوم کی بقاء کی جدوجہد بیرون ملک سے شروع کی لیکن کبھی اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کا مرتکب نہ ہوا۔
ساجد کی شہادت کے بعد ان لوگوں کو بھی سوچنا ہوگا، جو بیرون ملک پناہ لئے ہوئے ہیں اور بلوچ قومی تحریک کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور خاموشی سے اپنی زندگی گذار رہے ہیں، مظلوم قوم کے فرد کی حیثیت سے انہیں اس جنگ میں حصہ ڈالنا ہوگا اور اپنی بساط کی مطابق قومی تحریک کے لئے جدوجہد کرنا ہوگا۔ کل اگر آپ بلوچستان چھوڑ کر لندن، دبئی، شارجہ، سوئیڈن یا امریکہ منتقل ہوگئے ہیں تو کل وہاں ٹارگٹ شروع کردی گئی تو آپ کہاں پناہ لوگے۔ بلوچ کہیں بھی محفوظ نہیں اگر اس جنگ کو آگے بڑھانا ہے تو اپنے سرزمین کے اندر رہ کر بقاء کی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا کیونکہ یہ جنگ بلوچستان کی ہے اور بلوچستان کے اندر رہ کر ہی لڑی جاسکتی ہے۔
ساجد کی شہادت سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے تعمیر کئے گئے قلعے ایک ایک کرکے گرائے جارہے ہیں اور ہم خاموشی سے انہیں تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ یہ قلعے کیوں گررہے ہیں، کیا ان قلعوں کی تعمیر میں سیمنٹ کے ساتھ ریتی زیادہ نہیں ڈال دی گئی ہے؟ اس حوالے سوچنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔
ہم اپنے سرکردہ رہنماؤں اور دانشوروں کی شہادت پہ ماتم کرنے کے بجائے یا خوف زدہ ہونے کے بجائے انکی سوچ کو آگے بڑھانے پہ غور کرنا ہوگا کیونکہ خوف زدہ وہی لوگ ہوتے ہیں جنکے پاس کھونے کے لئے کچھ ہوتا ہے ہم تو اپنا سب کچھ کھوچکے ہیں۔ اپنا وطن، اپنے جوان، اپنے سمندر، اپنے پہاڑ، اپنے کھیت،اپنے دانشور سب قربان کرچکے ہیں۔
اب ہمیں بس پانے کی جدوجہد کرنا ہے۔ جنگ کو آگے بڑھانا ہے کیونکہ جنگ کی تیزی میں ہماری بقاء ہے اور جنگ سے فرار ہونے کا مطلب زندگی سے فرار ہونا ہے جو ناممکن ہے۔ہم اگر جنگ سے فرار ہو کر کہیں بھی گئے تو یہ یاد رکھیں کہ ہم کہیں بھی محفوظ نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔