بلوچستان میں قابض ریاستی فورسز کے جبر و استبداد میں جس خطرناک حد تک روز اضافہ ہورہا ہے وہ بلوچ سرزمین پر ایک انسانی المیہ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ریاستی فورسز کی گذشتہ مہینوں میں مزید شدت سے پانے والی کاروائیاں اس امکان کو مستحکم کرتی ہے کہ اب قابض ریاست بلوچستان میں کسی بھی قانون کو خاطر میں نہیں لانے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ماما قدیر بلوچ نے وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ میں وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3974 دن مکمل ہوگئے۔ نوشکی سے سیاسی و سماجی کارکن نذیر احمد اور نور احمد بلوچ نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔ جبکہ کوئٹہ کلی قمبرانی سے لاپتہ جہانزیب قمبرانی، محمد حسان قمبرانی، حزب اللہ قمبرانی کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ پاکستانی عسکری ادارے بلوچ پر امن جدوجہد کو کچلنے کیلئے اپنے پیش رو قابضوں کی طرح سروں کے مینار کھڑے کرنے بھی گریزاں نہیں ہونگے۔ گذشتہ ایک مہینے کے دوران ریاستی فورسز تربت کے علاقوں میں فضائی اور زمینی آپریشن کے ذریعے پچاس سے زائد بلوچ فرزندوں کو شہید اور اغواء کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں فورسز کی اس طرز کی کاروائیوں کے تسلسل کے پیش نظر یہ غالب امکان ہے کہ لاپتہ بلوچوں کے زندگیوں کو خطرات لاحق ہے۔
احتجاجی کیمپ میں موجود کمسن بانڑی بلوچ نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ جہانزیب قمبرانی کے لیے احتجاج کررہی ہے۔
بانڑی بلوچ نے کہا کہ میرے بھائی جہانزیب قمبرانی ولد عبداللہ کو 3 مئی 2016 کو ان کے گھر کوئٹہ کلی قمبرانی سے فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے رات کو چھاپہ مارکر حراست میں لیا جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔
احتجاج میں شریک حسیبہ قمبرانی نے کہا کہ وہ اپنے بھائی حسان قمبرانی اور کزن حزب اللہ قمبرانی کیلئے چار مہینے کے زائد عرصے سے احتجاج کررہی ہے لیکن حکومتی نمائندوں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔
حسیبہ قمبرانی نے کہا کہ اپنے پیاروں کی بازیابی تک وہ احتجاج جاری رکھے گی۔