پاکستانی فورسز نے کراچی یونیورسٹی کے طالب علم کو بلوچستان کے شہر تربت سے حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف گذشتہ ایک دہائی کے زائد عرصے سے احتجاج کیا جارہا ہے جبکہ اس دوران کئی لاپتہ افراد بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ گئے جبکہ کئی لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہے۔
جبری گمشدگیوں کا نشانہ بننے والے افراد میں اکثریت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ہے۔
رحمت بلوچ کے کزن احسان حیدر نے ان کے جبری گمشدگی کے حوالے سے بتایا کہ رحمت بلوچ کو پاکستانی خفیہ اداروں اور فرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے گذشتہ رات تربت میں ان کے گھر سے حراست میں لیکر لاپتہ کیا۔
احسان حیدر کا کہنا ہے کہ رحمت اللہ کراچی یونیورسٹی کا طالب علم اور چھٹیاں منانے اپنے گھر آیا تھا۔
پاکستان میں کرونا وائرس کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش کے باعث بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالب علم واپس اپنے گھروں کو آچکے ہیں، طالب علموں کے اپنے آبائی علاقوں کو پہنچ پر جبری گمشدگیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
گذشتہ دو مہینوں کے دوران ایسے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جہاں طالب علم چھٹیاں منانے اپنے گھروں کو پہنچ گئے انہیں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز سمیت دیگر وبا کے دنوں میں جبری گمشدگیوں پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔