بلوچستان لبریشن فرنٹ کے رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں تربت ڈنُّک واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات بلوچستان میں معمول بن چکے ہیں۔ اس دفعہ اہل محلہ کی مزاحمت اور بہادری کی وجہ سے یہ واقعہ سامنے آگیا ہے۔ ہم نے بارہا نشاندہی کی ہے کہ بلوچستان میں اکثر سماجی برائیوں اور لوٹ مار کے پیچھے قابض فوج اور اس کے آلہ کار ہیں جنہیں پارلیمانی پارٹیوں کی بھی سرپرستی حاصل ہے۔
ملٹری انٹیلی جنس کی سرپرستی میں ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے تربت ڈنک میں جاسم ولد امیر کے گھر پر ڈکیتی کے لئے حملہ کیا۔ مزاحمت پر ایک خاتون کو شہید اور ایک بچے کو شدید زخمی کیا ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ایسے گروہ قتل، چوری، ڈکیتی سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہیں لیکن بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف فوج و خفیہ اداروں کی معاونت کی وجہ سے پارلیمانی پارٹیاں ان کے دفاع پر کمربستہ ہیں۔ واردات کے بعد یہ لوگ اکثر فوجی کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں جوکہ ان کی مستقل پناہ گاہیں ہیں۔
بلوچ آزادی پسند رہنماء نے کہا کہ ڈنُّک میں گھر پر حملہ اور فائرنگ اور اس کے نتیجے میں ایک خاتون کی شہادت اور چار سالہ بچے کا زخمی ہونا ایک انتہائی قابل مذمت عمل اور قابل نفرت فعل ہے۔ اس کے ساتھ یہ انہی واقعات کا تسلسل ہے جو بلوچستان کے طول و عرض میں روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ یہ غلامی کی نمایاں علامات ہیں۔ غلام قوموں کے ساتھ یہ رویے تاریخ کے اوراق میں ہمیں ضرور ملتے ہیں مگر اس جدید دور میں کسی ملک کو کالونی بناکر غلامانہ سلوک روا رکھنا اکیسویں صدی میں انسانی تہذیبی رویوں اور اقدار کے منافی ہے۔ پاکستان اس جدید دور میں بھی بلوچستان کو قابض اور کالونی رکھ کر جو مظالم ڈھا رہی ہے، اس کی مثال آج کی دنیا میں شاید ہی ملے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا نے جس تیزی سے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی ہے، وہیں انسانی اقدار اور احترام کیلئے کئی تنظیمیں وجود میں آکر انسانی زندگی کو ایک اہم مقام دلانے میں کوشاں ہیں۔ ان تمام پیشرفتوں میں پاکستان عالمی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر نہ صرف کالونیلزم کو برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ ظلم، تشدد اور بلوچوں کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی پالیسی پر اس طرح گامزن ہے جو زرخرید غلاموں کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔ ڈنُّک تربت کا واقعہ کئی مثالوں میں سے ایک ہے۔ ان حملہ آوروں کا تعلق براہ راست ملٹری انٹیلی جنس سے ہے۔ وہ میجر ندیم کی سربراہی میں مختلف گینگ چلارہے تھے۔ میجر ندیم کو بلوچ سرمچاروں نے ایک حملے میں مار دیا تھا۔ تاہم جب تک پاکستانی قبضہ برقرار ہے، پاکستانی فوج آلہ کاروں کے استعمال سے باز نہیں آئے گا۔ انہیں بلوچستان میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے ہماری اقدار اور عزت و احترام کی روایات کی پامالی کرتا رہے گا۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے مزید کہا کہ تربت واقعے میں گھر والوں، ہمسایوں اور رشتہ داروں نے جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرکے پاکستانی دلالوں کو گرفتار کیا۔ واقعے کے فوراً بعد سوشل میڈیا میں ان حملہ آوروں کی بندوق بردار تصاویر اور اس گینگ کے ارکان کی ایک پاکستانی وزیر کے ساتھ تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں۔ یہ عناصر ہر قسم کی واردات کے بعد کٹھ پتلی وزراء کے گھروں اور فوجی کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ بلوچ نسل کشی، بلوچ ثقافت پر یلغار اور ہماری لج و میار اور عزت پر حملہ ہے۔