پناہ گزینوں کی دوہری مشکل
دی بلوچستان پوسٹ اداریہ
ساجد حسین جسے پاکستان سے جان بچاکر فرار ہونے کے بعد 2019 میں سویڈن نے سیاسی پناہ دی تھی، 2 مارچ 2020 سے لاپتہ تھا۔ اسے آخری بار سویڈن کے دارلحکومت اسٹاک ہوم کے شمال میں 56 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر اپسالا کی جانب ایک ٹرین میں بیٹھتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
یکم مئی کو ایک مقامی پولیس ترجمان جوناس ارونن نے میڈیا کو ساجد حسین کی گمشدگی کی بابت نئی معلومات دیتے ہوئے بتایا کہ ” انکی لاش 23 اپریل کو اپسالا کے قریب فائریس ندی سے برآمد ہوچکی ہے۔”
ساجد حسین ایک منجھے ہوئے بلوچ صحافی تھے، انکی گمشدگی کی خبر بہت جلد ہر طرف پھیل گئی تھی، اور تمام ملکی و عالمی میڈیا انکی گمشدگی کو رپورٹ کرچکے تھے۔ تاہم پاکستان کی دفتر خارجہ ساجد حسین کی گمشدگی اور بعد ازاں لاش کی برآمدگی پر مکمل مہر بہ لب رہی۔
ایک ایسے صحافی کی گمشدگی اور موت پر پاکستان کی مکمل بے توجہی، جو پاکستان کے نمایاں جریدوں میں کام کرنے والا نمایاں صحافی تھا، صحافتی حلقوں اور بیرن ملک پناہ کے متلاشی سیاسی کارکنوں میں شکوک و شبہات بڑھانے کا سبب بن چکا ہے۔
سویڈش پولیس نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ ” آٹوپسی رپورٹ کسی جرم کے مرتکب ہونے کے شکوک کو کم کرتی ہیں، لیکن اب تک پولیس تحقیقات کو مکمل ہونا ہے۔”
ردعمل میں صحافیوں کی عالمی تنظیم ” رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز” کے صدر ایرک ہاکئیر نے کہا ہے کہ ” جب تک کسی جرم کے ارتکاب کے امکان کو مکمل رد نہیں کیا جاتا، تب تک اس بات کا خطرہ ہے کہ ساجد حسین کی موت اسکے صحافتی سرگرمیوں اور انکے دی بلوچستان ٹائمز کے مدیر اعلیٰ ہونے سے جڑا ہوا ہے۔”
ساجد حسین بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں، منشیات کے کاروبار اور بلوچستان میں جاری فوجی آپریشنوں پر لکھتے تھے، جس کی وجہ سے وہ پہلے سے ہی پاکستان کے خفیہ اداروں کے نشانہ پر آگئے تھے اور انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کے گھر پر چھاپا پڑا تھا اور انکے کام والے لیپ ٹاپ کو سیکورٹی ادارے اٹھا کر لے گئے تھے۔ بالآخر وہ اپنے کام، خاندان اور وطن کو چھوڑ کر جلا وطنی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
ساجد حسین کی موت ان تمام پناہ کے متلاشیوں کیلئے ایک خطرناک پیغام ہے، جو جان بچانے کیلئے اپنا وطن چھوڑ کر دیار غیار میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ اب جو زندگی اور خطرات وہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں، وہ دوسرے ممالک میں بھی انکا پیچھا کرکے پہنچ رہے ہیں۔
ایک اور بلوچ صحافی ملک سراج اکبر، جو اپنے جان کو لاحق خطرات کے باعث بلوچستان چھوڑ کر امریکہ میں پناہ گزین کی حیثیت سے رہ رہے ہیں، اپنے ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ ” جیسا کہ ایک بار نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا کہ پاکستان کا سفارتی مشن “کمیونٹی آوٹ ریچ” کے نام سے امریکہ سمیت پوری دنیا میں تواتر کے ساتھ بیرون ملک آباد ڈائسپورا کی جاسوسی کرتی ہے۔”
ایک پناہ گزین ہونے کے ناطے انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ” اگر جمال خشوگی اور ساجد حسین کو اپنے وطن سے دور غائب کرکے پھر مار دیا جاتا ہے، تو پھر کوئی بھی پناہ گزین اس زعم میں نا رہے کہ ان تک پہنچ کر انہیں مارا نہیں جائے گا۔”
وہ ممالک جو، ان جنگ زدہ لوگوں کو اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں، جنہوں نے اپنا وطن ایک محفوظ زندگی گذارنے کی خاطر چھوڑا، ان ممالک کو یہ یقینی بنانا چاہیئے کہ وہ پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کرسکیں۔ انہیں ایسی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیئے کہ جن جابرانہ حکومتوں یا ممالک سے وہ جان بچاکر آئے ہیں، وہ یہاں ان تک نہیں پہنچ سکیں۔