منبر کا کاروبار…!
تحریر: عاطف شیرازی
دی بلوچستان پوسٹ
رستہ بند کیے دیتے ہو دیوانوں کا
ڈھیر لگ جائے گا بستی میں گریبانوں کا
آج تین مئی ہے۔ دنیا بھر میں صحافیوں اور قلم کے مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جارہا ہے، اس سے قبل یکم مئی یوم مزدور منا کر محنت کشوں کو سلام پیش کیا گیا ہے۔ محنت کش ہو یا قلم کا مزدور اس وقت انتہائی برے حالات سے دوچار ہیں۔ ایک طرف دونوں کوحالات کی سختیوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف سیٹھوں، سرمایہ داروں کے استبداد اور مقتدر طاقتوں کے غیض وغصب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس کے باعث قلم کے مزدور اور محنت کش عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ یکم مئی کو مزدوروں سے اظہار یکجہتی کیا گیا۔ دو جنوری سانحہ ملتان کے شہید مزدوروں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا، جو جنرل ضیا الحق کے ستم کا نشانہ بنے تو آج دنیا بھر کی صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظمیں صحافیوں سے اظہار یکجہتی کر رہی ہیں۔ کل ہی انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ نے مقامی صحافی قیصر سعید کی خود کشی پر شدید تحفظ کا اظہار کیا ہے۔ کہا جارہا ہے حالات کی سختیوں اور سیٹھوں کی سخت دلی سے تنگ آکر قلم اور کاغذ کا یہ مزدور پھانسی جھول گیا ہے۔ حالات اتنے بدتر ہیں جو صحافی ان سختوں کا دلیری سے مقابلہ کر رہے ہیں ان کی راہ میں مقتدر قوتیں حائل ہو کر ان کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ آج ہی اطلاع ملی ہے کہ سویڈن میں ساجد حسین بلوچ ایک صحافی کو چند روز پہلے اغوا کیا گیا، آج اس کی لاش ملی ہے۔
لاہور کا صحافی شبیر حسین طوری خطرناک مذہبی گروہ کی دھمکیوں کے باعث ملک چھوڑ کر دیار غیر پناہ لے لی ہے۔ یوم صحافت کے موقع پر ایسے دلخراش واقعات کے باوجود صحافی اپنے عزم سے متزلزل نہیں ہوئے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے حالات سے دل برداشتہ ہو کر بلوچستان کا صحافی سویڈن گیا، ظالموں نے اسے وہاں بھی نہ چھوڑا۔ بلوچستان کے صحافی بڑی مشکل سے صحافت کر رہے ہیں۔ ظالم قوتیں جبر اور طاقت کے نشے میں چُور ہیں۔ پی پی ایف (پاکستان پریس فاونڈیشن) نے کل ہی رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان کے صحافیوں کی مشکلات کا تذکرہ کیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے 38 صحافی کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ سال انیس بیس کے دوران دو صحافیوں کو جان سے مار دیا گیا ہے۔ سنئیر صحافی محمد حنیف (بی بی سی) کی کتاب شائع کرنے والے پبلشر کو دھمکیوں اور مسائل کا سامنا ہے۔ تنخواہیں نہ ملنے کیوجہ سے کیپیٹل ٹی وی کا نوجوان کیمرہ مین فیاض علی دل کا دورہ پڑنے سے شہید ہوگیا ہے، جس کا رپورٹ میں ذکر نہیں ہے۔ دس ماہ سے غریب کو تنخواہ نہ ملی دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا۔ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہاوس کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمنٰ نیب کی غیر قانونی حراست میں دو ماہ سے ہیں۔ ابھی تک مقدمے کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔ سرکار نے بڑے میڈیا ہاوسز کے اشتہارات پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس کا خمیازہ چھوٹے صحافیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ کئی صحافی بے روزگار ہو چکے ہیں۔ جنگ، اے آر وائی، جہان پاکستان سمیت کئی اداروں نے ورکرز کی چھانٹیاں کر دی ہیں۔ اس پیشے میں کوئی جاب سیکیورٹی نہیں ہے نہ کوئی جاب سٹرکچر ہے۔
سیٹھ، سرمایہ دار اور مقتدر قوتوں کے گٹھ جوڑ نے غریب صحافیوں پر حیات تنگ کردی ہے۔ سپریم کورٹ تک انصاف فراہم کرنے سے عاری ہے۔ دوسری جانب صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر منظم مہم شروع کرا دی گئی ہے۔ کل نئے معاون خصوصی اطلاعات و نشریات عاصم باجوہ کے جعلی یا اصلی اکاونٹ (واللہ اعلم) سے سنئیر صحافی حامد میر کے خلاف ٹویٹس کی گئی ہیں۔ جعلی یا اصلی اس لیے کہا گیا ہے کہ معاون خصوصی اطلاعات و نشریات عاصم باجوہ کے نام سے متعدد اکاونٹس ٹویٹر پر چل رہے ہیں جن میں کوئی ایک آدھ ہی اصلی ہو گا لیکن تمام اکاونٹس کی فالونگ ہزاروں اور لاکھوں میں ہے ان اکاونٹس سےہر وقت نفرت اور منافرت کے ٹویٹس کا لاوہ ابل رہا ہے۔ نفرت کی چھینٹیں اڑانے والوں میں امن و آشتی کا درس دینے والے مولانا طارق جمیل کے حامی بھی شامل ہیں۔ مولانا طارق جمیل کہتے ہیں میڈیا سچ نہیں بتاتا۔ مولانا صاحب آپ سچ بتائیں جو میڈیا نہیں بتاتا۔ آپ سچ بتائیں اس مالک کو بے نقاب کریں جو جھوٹ چلانے پر مجبور ہے ساتھ یہ بھی سچ بتائیں کہ جو چند پاگل حامد میر، احمد نورانی، عمر چیمہ جیسے لوگ سچ بتاتے ہیں ان کا کیا حال ہوتا ہے۔ اپنے منبر سے آپ نے کبھی ان واقعات کی مذمت کی ہے کبھی آپ نے ظالموں کی حوصلہ شکنی کی ہے، آپ تو سچے عالم دین ہیں۔ آپ نے کبھی بتایا ہے کہ جس حامد میر کو گولیاں ماری گئیں وہ آج بھی ادھر پاکستان میں ہے۔ وہ پاکستان چھوڑ کے بھاگا نہیں ہے جناب یہ اس سے بڑھ کے محبت کیا ہوگی۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب حامد میر کی گاڑی کی نیچے دھماکہ خیز مواد لگایا گیا اور حامد میر کو ڈرایا دھمکایا گیا۔ مجھے ایڈِیٹر روزنامہ جنگ نے حامد میر کا انٹرویو کرنے کے لیے بھیجا، مجھے آج بھی وہ جواب یاد ہے جب میں نے پوچھا کہ آپ پاکستان چھوڑ کے چلے جائیں گے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ پاکستان کبھی نہیں چھوڑیں گے۔
سرکار یہ دیس جتنا آپ کا ہے اتنا ہی ہمارا ہمارے بچوں کا ہے۔ آپ تو شاید مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد باہر شفٹ ہو جائیں لیکن ہم نے ادھر ہی مرنا ہے۔ ہمارے بچوں نے انہی سرکاری سکولوں میں پڑھنا ہے۔ مولانا صاحب یہ سچ بھی بتائیں پلیز کہ جو دلیر صحافی ان پریشر گروپس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سچ بتاتے ہیں ان کو مارا جاتا ہے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی جاتی ہے۔ مولانا صاحب یہ حقیقت بھی ظالموں کو بتائیں کہ کے ظلم کا سامنا کرنے والوں کو جو ہمت عطا کرتا ہے وہ ظالموں کے مظالم سے کئی گنا زیادہ ہے۔ حضور آپ ممبر پہ چڑھ کر یہ سچ بتائیں یا نہ بتائیں۔ لیکن یہ سچ کی خوبی ہے وہ میرا اور آپ کا محتاج نہیں ہے۔ اور جو سچ تاریخ لکھتی ہے وہ ظالموں کو عبرت بنا دیتی ہے گالی بنا دیتی ہے۔ تاریخیں ظالم اور مظلوم کی ایک ہی ساتھ لکھی جا رہی ہوتی ہیں لیکن جو تاریخ درباری ملا درباری صحافی لکھتے ہیں وہ سچ نہیں ہو سکتی اصل تاریخ وہ ہی ہے جو جابر کے خلاف رقم ہو رہی ہوتی ہے طاقتور ٹویٹر اکاونٹس سے آج نکلنے والے نفرت آمیز ٹویٹس کل تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اور یہی ٹویٹس فیصلہ کریں گے سرکاری وسائل اور سرکاری سوشل میڈیا ٹیمیں چند صحافیوں کے خلاف صرف اس وجہ سر گرم تھیں وہ صحافی نا پسند تھے ان کے خلاف کروڑوں روپے صرف ٹویٹس ٹیموں کو دے کر نوجوانوں کے ذہن خراب کیے جارہے تھے۔ عقل و دانش کا راستہ روکا جا رہا تھا یہ ٹویٹس اور غلیظ مہمیں دراصل آپ سچ لکھنے والوں کے خلاف نہیں چلا رہے یہ تاریخ آپ کو رقم کر رہی ہے۔ تاریخ آپ کو تحریر کر رہی ہے اور ایسے الفاظ میں لکھ رہی ہے کہ جس کا ابھی آپ کو اندازہ نہیں لیکن اس کا خمیازہ آپ کی نسلیں بھگتیں گی۔ اگر اپ اندازہ کرنا چاہیں تو دیکھ لیں آج سوشل میڈیا ہر ہر اکاونٹ سے ضیا الحق کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جا رہا تو جو کچھ اب کیا جا رہا ہے یہ تاریخ بھی ضیاالحق سے مختلف نہ ہو گی عاصم باجوہ صاحب آپ نے عہدہ سنبھالا ہے۔ صحافی برادری کی جانب سے مبارک بادیں بھی دی گئیں کہ اس امید کا اظہار کیا گیا کہ صحافتی کمیونٹی کے مسائل حل ہونگے ایک پڑھے لکھے شخص نے معاون خصوصی اطلاعات و نشریات کا عہدہ سنبھالا ہے اس سے قبل اپ کے پاس سی پیک اتھارٹی کی سربراہی کا بھی عہدہ ہے۔ اللہ کرے آپ کو مزید عہدیں ملیں آپ کی طاقت میں بے تحاشا اضافہ ہو لیکن جناب تھوڑا سا اس بات کا بھی خیال کریں اب آپ حاضر سروس جرنیل نہیں ہیں اس زعم سے نہیں نکلنا مت نکلیں لیکن اس بات کا خیال رکھیں اپ کے پاس ایک زمہ دارانہ عہدہ ہے۔ لاکھوں لوگوں کی فین فالونگ آپ کو حاصل ہے ۔متعدد اکاونٹس اپ کے نام سے چل رہے ہیں آپ کے آتے ہی ساتھ ہی سنئیر صحافیوں کے خلاف مہم میں تیزی آگئی ہے۔ آپ کو جرنیلی کا زعم ہے تو رہے لیکن حامد میر بھی پاکستانی صحافت کی آبرو ہے۔ ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ حامد میر ہمارا جرنیل ہے لیکن صحافیوں کو جرنیل کہنا ہمیں زیب نہیں دیتا ہم قلم کا مزدور کہلانے پر فخر کرتے ہیں۔
آپ کے نام اور تصویر والے اکاونٹس سے ماہ مقدس میں لعنتوں سے بھرے نفرت آمیز ٹویٹس نکل رہے ہیں۔ اب آپ سول ادارے کے معاون خصوصی ہیں۔ آپ کا عہدہ آپ کو زیب نہیں دیتا کہ آپ کسی ایک صحافی کے خلاف محاذ کھول دیں۔ آپنے ترقیاتی کاموں کے ٹویٹس کریں ان سے پروجیکشن لیں لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے۔ یہ نازیبا ٹویٹس اپ کے عہدے کے بھی شان شایان نہیں ہیں۔گلی محلے سے آٹھ کر آنے والے بھی ایسی زبان استعمال نہیں کرتے جو اپ کےاصلی یا نقلی اکاونٹس سے استعمال ہو رہی ہے۔ اس سے پوری دنیا میں اپ اور پاکستان کا امیج متاثر ہو رہا ہے کہ یوم آزادی صحافت کے موقع پر صحافیوں کے خلاف نفرت آمیز مہم چلائی جارہی ہے۔ ہم دنیا کو کیا دکھا رہے ہیں۔ کہ جب پوری دنیا صحافیوں کے ساتھ تین مئی کو یکجہتی کر رہی تھی پاکستان میں صحافیوں کے خلاف نفرت آمیز مہم چلائی جارہی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تین مئی مشکلات کا شکار صحافیوں کے لیے حکومت پیکج کا اعلان کرتی۔ جاب سٹرکچر سوشل سیکیورٹی کا اعلان کرتی اس کے برعکس تین مئی کو صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع کر دی گئی بجائے سوشل سیکیورٹی، جاب سیکیورٹی لایف سیکیورٹی کو یقینی بنایا جاتا حکومت نے سوشل میڈیا پر مہم چلا کر تین مئی کو صحافیوں کی زندگیوں کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے معاون خصوصی صاحب اگر یہ ٹویٹر اکاونٹس نقلی ہیں تو اپ نوٹس لیں اگر اصلی ہیں تو آپ حکومت کے ترقیاتی کاموں کے ٹویٹس کریں۔ پاکستانی میڈیا بھی خوب کوریج دیے گا ملک کا امیج بھی بہتر ہو گا لیکن ایسے ٹویٹس جس سے ہمارے ساتھی صحافیوں کو خطرہ ہو اس کے خلاف ہم ٹویٹس نہیں کالم لکھیں گے۔ ہمارا کام ہے لکھنا اور بے خوف ہو کہ لکھنا۔ کیونکہ
ہم راہ رو دشت وفا روز ازل سے
اور قافلہِ سالا حسین ابن علی ہے
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔