مزدوروں کا عالمی دن اور مزدور
تحریر: گورگین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مئی کے گرم تپتے دن تھے، ایک دن صبح سویرے 50 ایکڑ کے سرسبز باغ میں جہاں 40 سے زائد مزدور کام کررہے تھے، وہیں باغ کے ایک کونے میں بڑے عالیشان فارم ہاؤس کے صحن میں 2 دن پہلے عمرہ ادائیگی سے آئے ہوئے جناب عالیشار صاحب کرسی پر بیٹھ کر گرم چائے کا مزہ لیتے ہوئے آج کا اخبار پڑھ رہا تھا۔
اخبار کے سرخی میں شہدائے شکاگو کو سرخ سلام کے ساتھ ایک لمبی تحریر اخبار کے مالک نے چھاپا تھا۔ جناب عالیشار صاحب چونکہ خود اپنے حکومتی کابینہ میں مزدوروں کے وزیر کے عہدے پر فائز ہیں۔ جناب کو جلدی جلدی یاد آیا، آج تو مزدروں کا عالمی دن ہے، مجھے ریلوے اسٹیشن جانا ہے، وہاں ان کے منعقد کیے گئے جلسے میں تقریر کرنی ہے۔
بابو کہاں ہو؟ جلدی آجاؤ، وہاں پڑی کتابوں سے ایک کتاب لے آؤ، دیکھ لینا کتاب میں مزدوروں کی اہمیت کے حوالے سے کوئی بات ہو اسے جلدی لکھ کر میرے پاس لے آنا۔
مگر جناب عالیش۔۔۔ا۔۔ر بابو کی زبان ہچکچا رہی تھی
عالیشار نے غصے سے کہا۔۔۔ کیا اگرمگر بابو؟
جناب ہمارے ایک کسان کے بچے کی طبیعت بہت خراب ہے، ایسا نا ہو مر جائے، ہمیں ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہئے۔
بابو تم پاگل ہو کیا؟ آج کیسا دن ہے ہمیں ان پاگل ان پڑھ مزدوروں کے علاج کے لیے جانا چاہیئے یا جلسے میں؟ جناب عالیشار غصے سے لال پیلا ہوا، ان کو مرنا ہے مرنے دو اور مزدور ہیں ہمارے پاس۔
بابو جی جی کرتے تقریر لکھنے بیٹھ گیا۔
پاس کھڑا سکندر بول اٹھا “جناب آج میری بیوی کو میکے لے جانا ہے، اسکی ماں گذشتہ رات انتقال کرگئی ہے۔ اگر آپ آج چھٹی دیں؟”
کیا؟ تم بھی پاگل ہوگئے ہو؟ اگر تم گئے ان پاگل مزدوروں کو کون سمجھا ئے گا کہ ان کو کیا کیا کام کرنا ہے، نہیں آپ کو کہیں نہیں جانا ہے۔ آج سیبوں کیلئے زمین کو صاف کرنا ہے، میرے آنے تک کام کرتے رہنا۔
20 گاڑیوں پر مشتمل قافلے کی صورت میں باڈی گارڈز باہر الرٹ کھڑے تھے انتظار میں اور ساتھ ساتھ لیویز و پولیس کی بھاری نفری پہنچ چکی تھی۔
مزدوروں کے عالمی دن کے حوالے سے بابو نے بمشکل ایک صفحے پر تقریر مکیسیم گورکی کی کتاب سے لیکر مکمل کیا۔
جناب عالیشار صاحب سفید کاٹن، کالے بوٹ، کالے واسکٹ، کالے عینک لگائے شیشے کے سامنے کھڑا تھا۔ گھر کے قریبی جھونپڑی سے عورتوں کی رونے کی آوازیں آئیں۔ بابو بھاگ بھاگ کر آیا اور بولا جناب جناب وہ وہ وہ۔۔۔۔۔۔عورت کا بیٹا فوت ہوا۔
اچھا بابو تم ایسا کرو، ان عورتوں کو چپ کراؤ ان سے کہنا مرنا جینا اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے، ہر ایک کو مرنا ہے، یہ اللّٰہ پاک نے قرآن شریف میں فرمایا ہے۔ عالیشار صاحب مونچھوں کو تاؤ دے کر بابو سے کہہ رہا تھا اور ہاں بابو ان عورتوں سے کہنا کپاس چننا اور میرے آنے تک یہ کام تمام ہو اور تم میرے ساتھ آرہے ہو نا؟
50 ایکڑ کے زمین میں کام کرنے والے مزدوروں کو کیا پتہ آج مزدور ڈے ہے، ہمارے صاحب مزدوروں سے تقریر کرنے جارہا ہے۔ مزدوروں کے حقوق کے بارے میں بات کرنے جارہا ہے۔ مزدوروں کی حالات زندگی کے بارے میں بات کرنے جارہا ہے۔ شہدائے شکاگو کی یاد میں سیمینار میں تقریر کرنے جارہا ہے۔
بابو دل ہی دل میں ان باتوں کو دھراتے جارہا تھا، بابو کی جھونپڑی میں پہنچتے ہی ایک اور زار و قطار رونا شروع ہوا معلوم ہوا ایک مزدور کی بیوی دوران زچگی وفات پاچکی ہے۔
گاڑیوں کی لمبی کاروان بلیک شیشوں میں روڈ کے کنارے سے گذر رہے تھے، روڈ کے کنارے کام کرنے والے مزدور ان سے بے خبر اپنے کام میں مصروف تھے۔ عورتیں، بچے، مزدور روڈ کے کنارے پڑے بڑے کنکریوں کو توڑنے میں لگے تھے۔
جناب عالیشار صاحب بلیک گاڑی کے اے سی میں بابو کی لکھی ہوئی تقریر کو رٹا لگا کر یاد کررہا تھا
ریلوے اسٹیشن پہنچتے ہی حلقے کے سارے جاگیردار، وڈیرہ، میر ، معتبر بڑے بڑے پگڑیوں اور مونچھوں کے ساتھ وزیر صاحب کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ اسٹیشن کے باہر ایک مزدور جلدی سے جناب عالیشار صاحب کے بوٹ صاف کرنے کے لیئے جھک گیا اور یہ مئی مزدور ڈے یوں اختتام پذیر ہوا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔