مت قتل کرو آوازوں کو – لطیف بلوچ

431

مت قتل کرو آوازوں کو

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ساجد حسین بلوچ روشن دماغ تھا، تجسس، تعقل اور تفکر کرنے والا ذہن، اور شعور و ادارک رکھتا تھا۔ وہ زندگی کے تمام رموز سے واقف تھا، وہ زندگی کی قدر جانتا تھا، وہ چاہتا تو اپنی قابلیت کے بل بوتے پر کسی اچھے سرکاری نوکری پر فائز ہوسکتا تھا۔ بلوچستان میں رہ کر صحافت کرسکتا تھا، پاکستان کی مین اسٹریم میڈیا کا حصہ بن کر شہرت اور مراعات حاصل کرسکتا تھا، صحافت کو بطور ہتھیار بلیک میلنگ کے استعمال کرسکتا تھا اور بھی بہت کچھ کرسکتا تھا۔ میڈیا ایڈوائزر بن کر دولت سمیٹ سکتا تھا، فلسفیانہ موشگافیوں میں پڑ کر پاکستانی سوشلسوں کی طرح نام کما سکتا تھا لیکن تفاوت یہ تھا کہ وہ عیش عشرت، آسائش اور دولت سے زیادہ قوم اور وطن سے محبت کرتا تھا، زندگی کی تمام آسائیشوں کو ٹھکرا کر وہ جس راہ پر چل پڑا تھا وہ جانتا تھا کہ یہ راہ بہت کھٹن ہے اس راہ پر قدم قدم مشکلات و مصائب اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ساتھیوں کو سرے راہ الوداع کرنا پڑتا ہے۔

جلاوطنی کتنا تکلیف دہ ہے، اپنوں سے بچھڑنا پڑتا ہے، والدین، بہن و بھائیوں سے دور ہونا پڑتا ہے، یاروں کو چھوڑنا پڑتا ہے، انہوں نے ان تمام مشکلات کو خندہ پیشانی سے تسلیم کیا، وہ جلاوطن ہوئے، جلاوطنی پر سکون و پر کشش لائف گزارنے کے لئے اختیار نہیں کیا تھا کیونکہ اگر وہ چاہتا پرمسرت، پر کشش زندگی وہ بلوچستان میں رہ کر بھی گذار سکتا تھا۔ وہ وطن سے جلاوطن ہوئے لیکن خاموش نہیں بیٹھے، ہر لمحہ ہر سانس وطن کے نام، شہیدوں اور اسیروں کے نام کرکے جہد کرتا رہا، جستجو کرتا رہا وہ مسقط سے یوگنڈا اور سوئیڈن تک گئے لیکن خاموش نہیں بیٹھے رہے۔ وہ لکھتا رہا، تلاش کرتا رہا زاہد کو ذاکر کو دین محمد کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود وہاں پہنچ گئے جہاں سے واپسی ایک معمہ ہے جو بھی اس پر اسرار راہ پر گئے ہیں وہ بھوتوں اور ویمپائرز کا شکار ہوئے ہیں۔ انسانی خون کے پیاسے یہ ویمپائرز بلوچ کے میٹھے خون سے پیاس بجھانے کے لئے سوئیڈن تک ساجد کا پیچھا کرتے رہے، دو مارچ سے ساجد ہاسٹل میں شفٹ ہونے کے بعد سے لاپتہ ہوئے اور 30 اپریل کو پولیس نے تصدیق کردی کہ اُپسالہ کے دریا کے کنارے ملنے والی لاش ساجد کی ہے۔

علم و شعور کے دشمن ساجد سے خوفزدہ تھے، ان کے ہاتھ میں قلم تھا اور یہ علم و عقل کے دشمن قلم سے ڈرتے ہیں، شعور اور روشنی سے خوفزدہ ہیں۔ یہ ان ہی عقل دشمنوں کی قبیل سے ہیں، جن کی وجہ سے عقل و منطق کے استعمال کے پاداش میں سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا، ﺟﯿﻮﺭﮈﺍﻧﻮ برونو کو زندہ جلایا گیا، گیلیو کو سزا بھگتنا پڑا۔

وقت نے ثابت کردیا کہ سقراط، ﮔﻠﯿﻠﯿﻮ اور ﺑﺮﻭﻧﻮ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﻧﻈﺮﯾﮧ ﺩﺭﺳﺖ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ انہیں سزا و ﺍﺫﯾﺖ ﻧﺎﮎ ﻣﻮﺕ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﻏﻠﻂ ﺩﻭﺭﺍﮨﮯ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﺗﮭﮯ۔ یونان کے بادشاہ ﺳﻘﺮﺍﻁ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ تھے، ﻣﮕﺮ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻧﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺳﻘﺮﺍﻁ ﮐﺎ ﺳﭻ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﮭﺎ۔

اس حق پرست قافلے میں شامل لوگ علم اور نظریہ کی سچائی ثابت کرنے کے لئے کہیں زہر کا پیالہ پیتے ہیں، کہیں سولی پر چڑھ جاتے ہیں، کہیں مسخ لاش کی صورت میں ملتے ہیں تو کئی جبری گمشدگی کا شکار ہوکر عقوبت خانوں میں اپنے نظریہ کو سچ ثابت کرنے اور تاریخ کے درست سمت میں کھڑے ہونے کے لئے ہر طرح کی اذیتیں سہہ رہے ہیں۔

بلوچستان جدید دور کا ایتھنز اور ویٹیکن سٹی ہے، جہاں رجعت پسندانہ خیالات کو تقویت دینے کے لئے کتابیں جلائی جاتی ہیں، علم و منطق کا روز قتل کیا جاتا ہے، حق و سچ کے پاداش میں نوجوان غائب کئے جاتے ہیں اور موت کے گھاٹ اتارے جاتے ہیں۔ قبل مسیح میں عقل و منطق کے دشمن مذہب کو بطور آلہ استعمال کرتے تھے اور اکیسویں میں صدی میں بھی مذہب کو جدید خیالات، شعور اور علم کے سامنے لاکھڑا کیا جاتا ہے۔ لیکن آوازوں کو قتل کرکے علم، شعور، نیکی اور صداقت کی ارتعاش کو پھیلنے سے نہیں روکا جاسکتا اور ساجد علم و دانش کا سمندر تھا جو ہر روز اجتماعی شعور کی سمندر میں ارتعاش پیدا کرتا رہے گا ۔

مت قتل کرو آوازوں کو
تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے ہو
ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے
جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا
جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے
(احمد فراز)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔