قومی مفاد اور پاکستان – بلال بلوچ

460

قومی مفاد اور پاکستان

تحریر: بلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب ہم قومی مفاد کے کتابچے پر نظر دوڑاتے ہیں تو بہت سے حالات و واقعات اور حقیقتوں سے روشناس ہوتے ہیں، جن میں سے مندرجہ ذیل پانچ قابل غور و فکر ہیں۔

یہ قومی مفاد میں تھا کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان، جن کو سید اکبر نامی شخص نے ہزاروں افراد کے سامنے گولی مار کر قتل کیا مگر بدقسمتی سے قتل کے محرکات پاکستانی قوم آج تک نہیں جان سکی۔

حالانکہ جس نے گولی چلائی تھی اسے ہجوم کے لوگوں نے، جو قاتل کے اردگرد تھے قابو کرلیا تھا، مگر اس وقت کے پولیس افسر نجف خان کا وہ پشتو جملہ “دا چا ڈزے او کڑے؟ اولہ” ترجمہ گولی کس نے چلائی؟ مارو اسے” وہاں پر موجود پولیس کو موقع فراہم کیا، جنہوں نے قاتل پر فائر کرکے اسے ختم کردیا۔

آج تک پاکستانی قوم اس قتل کے محرکات جان نہیں سکی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جس شخص نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو قتل کیا تھا، وہ کسی اور سے نہیں بلکہ حکومتِ پاکستان سے ایک سو پچپن ڈالر 155 ڈالر جو اس دور میں پاکستانی 450 روپے بنتے تھے وظیفہ بھی لے رہا تھا۔.

قومی مفاد میں تھا کہ 1965 میں جب ایک فوجی جرنل ایوب خان نے پاکستان کے بانی محمد علی جناع کے بہن اور مادر ملت پاکستان فاطمہ جناح کو پاکستان کے پہلے بھارتی ایجنٹ اور غدار کا لقب دیا۔

ہوا یوں کہ اس وقت یعنی 1958کے پہلے مارشل لاء ڈکٹیٹر فیلڈ مارشل آرمی جرنل ایوب خان نے اپنی مرضی کا ایک آئین تشکیل دیا اور انیس سو پینسٹھ 1965 میں انتخابات کا اعلان کروایا، ایوب خان نے اپنے آپ کو خود صدارتی امیدوار بنایااور انہوں نے انتخابات سے پہلے ایبڈو اور پروڈا جیسے کالے قوانین بنا کر اس وقت کے سات ہزار 7000 سیاستدانوں پے کرپشن کے الزامات لگا کر سات سات سال تک نااہل قرار دیا اور یہ یقین جانا کہ اس طرح وہ باآسانی الیکشن جیت جائینگے، مگرجب اپوزیشن نے فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مد مقابل صدارتی امیدوار کھڑا کردیا تو فوجی جرنل نے فاطمہ جناح کو پاکستان کے سب سے پہلے “غدار ” اور ” انڈین ایجنٹ ” کا خطاب دیا.

یہ قومی مفاد میں تھا کہ۔ 1970 کے شفاف الیکشن میں واضح اکثریت جیتنے کے باوجود مشرقی پاکستان کے بھاری اکثریت کی آوز کو نظر کر دیاگیا اور پھر بلا آخر بنگلہ دیش بنا۔

جب انیس سو ستر 1970 میں پاکستان کے پہلے شفاف انتخابات بوئے تو اس وقت مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان نے کلین سویپ کیا اور الیکشن میں 160 نشستیں جیت لیں اور اس کے مد مقابل امیدوار ذولفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں 81 نشستیں جیتے، پاکستانی قوانین اور آئینی نکتہ نظر سے شیخ مجیب ہی نئے حکمران تھے مگراس وقت بھٹو نے شیخ مجیب کی جیت کو تسلیم نہیں کیا اور جو قومی اجلاس منتقلیِ اقتدار کے حوالے سے ڈھاکہ میں یکم جنوری 1971 کو بلایا گیا اس میں شرکت کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ دوسروں کو بھی جانے سے منع کردیا اور یہ تک کہا جو بھی اجلاس میں گیا وہ اس کی ٹانگیں توڑدینگے، اس وقت کے تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں کہ ماسوائے چند سیاستدانوں کے اکثریت میں سے کسی نے بھی مشرقی پاکستان پے فوج کشی کی مخالفت نہیں کی۔

قومی مفاد میں تھا کہ امریکہ بہادر اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر سویت یونین کے خلاف نوجوانوں کے ہاتھوں میں قلم کے بجائے اسٹرنگ میزائل اور کلاشنکوفیں دے کر اپنے پڑوسی ملک افغانستان میں جہاد کے نام پر طالبانائی زیشن کی بنیاد رکھی.

جب روس نے دسمبر 1979 میں افغان صدر کے محل پر حملہ کرکے اس وقت کے افغان صدر حفیظ اللہ امین کو اس کے محل میں قتل کیا اور اپنی مرضی کی حکومت قائم کی تب پاکستان کے اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے پاکستان کے قبائلی نوجوانوں کو جہاد کے نام پر افغانستان بھیجا۔

پہلے تو ضیاء الحق نے امریکہ کو منع کیا، جب اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے ضیاء الحق کو 300 ملین امریکی ڈالر کے عیوض سویت یونین کے خلاف جنگ کے لیئے مدد اور شامل ہونے کو کہا تھا ضیاء نے پہلے معذرت کرلی مگر اس کے بعد امریکہ کے نئے آنے والے صدر ریگن جو ایک سیلز مین کا بیٹا تھا، اس نے ضیاء الحق کو آپریشن سائیکلون کے مد میں تین بلین ڈالر کی نہ صرف امداد دی بلکہ اور بھی فوجی مراعات دئے اور اس کے بعد پاکستان نے مجاہدین بنانے کے بیشمار کارخانے افغانستان اور پاکستان میں قائم کئے، نہ صرف پاکستان بلکہ بہت سے اسلامی ممالک سے اسلام سے محبت کے نام پر جہادیت کی بنیاد رکھی گئی اور یہ ہی وہ وقت تھا جب اسامہ بن لادن بھی افغانستان آئے، روس تو ستائیس دسمبر 1989 کو افغانستان سے تو واپس چلاگیا، مگر ان دس سالوں کی جہادیت کے اثرات آج بھی افغانستان اور پاکستان میں ابھی بھی موجو ہیں.

قومی مفاد ہی تھا کہ ایک اور فوجی جرنل نے ایک بزرگ بلوچ سردار اور سیاستدان کو میزائل سے نشانہ بنا کر اس کو قتل کردیا۔

نواب اکبر بگٹی کے مزاحمتی پہلو پر نظر دوڑائیں تو وہ پرویز مشرف کی آخری دور سے شروع ہوتی ہے، یعنی دو ہزار چار کے آخر میں (اس سے پہلے وہ کبھی بھی بلوچ مزاحمتی تحریک کا حصہ نہیں رہے) بلکہ بگٹی نے دونوں ایوانوں وفاق اور صوبوں میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی، مگر جب 2004 کو جب نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے وسائل کو بچانے کے حوالے سے ایک تحریک کا آغاز کرتے ہیں، تو پرویز مشرف حکومت کے اس تحریک کے حوالے سے اکبر بگٹی سے مذاکرات پر آمادہ ہو جاتا ہیں، اسی دوران حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیش رفت ہوتی ہے، جس میں چودھری شجاعت حسین اور مشاھد حسین سید ہوتے ہیں۔

مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی ہے، اسی دوران ڈیرہ بگٹی میں فوجی جنرل پرویز مشرف اکبر بگٹی کے محل پر بمباری کرتا ہے، جس میں معصوم بچوں سمیت بیشمار لوگ قتل ہوتے ہیں۔ معصوم لوگوں کے قتل کے بعد نواب اکبر بگٹی اپنے بگٹی قبائل کے لوگوں کے ساتھ پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں اور مسلح جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں، اسی مسلح جدوجہد کے ردعمل میں نواب اکبر بگٹی کو آج سے تقریباً چودہ سال پہلے یعنی اگست 2006 کو چھلگری بمبور و تراتانی کے پہاڑوں پہ گن شپ ہیلی کاپٹروں سے میزائل سے حملہ کرکے 37 ساتھیوں سمیت قتل کردیا جاتا ہے اور آج تک اس میزائل کی آگ کی چنگاری بلوچستان کے بادلوں میں پروان چڑھ ہا ھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔