قلم سے بندوق تک کا شعوری سفر – عبدالواجد بلوچ

370

قلم سے بندوق تک کا شعوری سفر

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ہم اپنی عام زندگی میں وطن اور اس کی محبت کے حوالے سے جو جذبات رکھتے ہیں، وہ بھی اور کچھ ایسے گوشے بھی جن پر ہماری نظر نہیں ٹہرتی ہم تصور ہی نہیں کرتے کہ اس مردم خیز زمین نے ایسے سپوت پیدا کئے ہیں، جو واقعتاً وطن زادے ہیں، جب ایک زمین اس حد تک مردم خیز ہو تو اس زمین اور اس زمین کے فرزندوں کو کوئی غلام بنا سکتا ہے؟یقیناً نہیں.

وطن پرستی مستحسن جذبہ ہے، اس لئے تو ایسے فرزندانِ وطن کے پاؤں فیصلہ لینے سے نہیں لرزتے، ہم نے دیکھا، جب جب مادرِ وطن بلوچستان پر اغیار نے یلغار کی تو وطن زادوں نے ہمیشہ اپنی سروں کی قربانی دی، لیکن بدقسمتی سے اس مرتبہ بلوچ کا سامنا ایک غیر مہذب شاطر ریاست سے ہے جو اپنے چرب زبان پالیسیوں سے عام بلوچ کو ورغلا رہا ہے، ان کی ساری مشنری اس امر پر صَرف ہورہا ہے کہ کسی نا کسی طرح بلوچ نوجوانوں کو اس جہدِ آجوئی سے دور کرلے. لیکن یہ ریاست اک لمحہ بالکل بھول جاتا ہے کہ اس تحریکِ آجوئی میں لوگ اس مرتبہ شعوری صورت میں شمولیت اختیار کررہے ہیں.

جی ہاں، یہ کل کی بات ہے کہ جب جب بلوچ طالب علم اپنے علم کی پیاس بجھانے قابض پاکستان کے بڑے شہر اسلام آباد، لاہور یا کسی دوسرے شہر کا رخ کرتے ہیں یہ سوچ کر کہ بلوچستان میں تعلیمی ڈھانچہ ہی نہیں جب تعلیمی ادارے دانشگاہ سے زیادہ سیکیورٹی فورسزکی کیمپ لگیں تو بلوچ طلباء امن کی تلاش میں اُن بڑے شہروں کی جانب رختِ سفر باندھ لیتے تاکہ اپنا علمی پیاس بجھا سکیں۔

لیکن ریاست کے غنڈے سامراجی طرزِ فکر کے دلدادے، بلوچ کے جاہل، ان پڑھ، پہاڑی تصور کو فروغ دینے والا سوچ بلوچ طلباء کو ان بڑے شہروں میں بھی سکون سے پڑھنے نہیں دیتے۔

جب اسلام آباد میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے رہنماء سنگت احسان بلوچ باقی تمام بلوچ طلباء کے ساتھ مل کر اپنے جائز حقیقی تعلیمی حقوق کے لئے روڈوں پر نکلتے ہیں، تو ان کے مُنہ پر یہ نعرہ نہیں ہوتا کہ “بلوچستان کو آزادی دو” بلکہ وہ کہتا ہے کہ پُرامن طریقے سے ہمیں ہماری جائز تعلیمی حقوق دئیے جائیں لیکن ریاست کی طرف سے ہمیشہ بلوچ کے ساتھ ایک ایسا سلوک رکھا جاتا ہے جس سے بلوچ کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ جی ہم آپ کو کوئی حقوق نہیں دیں گے بلکہ جس زمین پر آپ رہتے ہیں اس زمین کے وسائل سے ہمیں سروکار ہے آپ سے نہیں۔

اسی لئے تو سنگت شاہ داد بلوچ گذشتہ حکومت کے وزیر احسن اقبال سے کہتا ہے کہ “بلوچستان میں ریکوڈک بھی تھا، سیندک بھی تھا، سوئی میں گیس بھی نکلا لیکن یہ سارے پروجیکٹ بلوچستان اور بلوچستان کے لوگوں کی محرومیاں ختم نا کرسکے تو پاک چائنہ اشتراکیت سے بننے والی پروجیکٹ CPEC بلوچستان سے کس طرح محرومیوں کا خاتمہ کرے گا؟
یہ وہ طالب علم تھے، جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ہاتھ میں تھامے اپنے محرومیوں کے خاتمے کا نعرہ لگا رہے تھے، لیکن جب ریاست صرف قابض ہو اور اپنے مقبوضہ کو صرف غلام کی حیثیت دے تو بغاوت جم لیتی ہے.

جب جب ریاستی ظلم بڑھے گا تب تب ‏بلوچ نوجوان اپنے قومی فوج میں شامل ہوکر اپنے وطن کی دفاع میں شہادت کو ترجیح دیتے رہیں گے۔

شہید احسان بلوچ اور شہید شاہ داد بلوچ باشعور پڑھے لکھے نوجوان تھے جو ریاستی جبر کے خلاف قلم سے بندوق تک کی سفر میں ہمیشہ ایمانداری سے اپنا فرض نبھا رہے تھے اور جب جب مادر وطن پر اغیار ظلم کرتے رہینگے تب تب احسان و شاہ داد جیسے وطن زادے وطن کی دفاع میں اپنا جان قربان کرنے کے لئے نہیں ہچکچاتے .

دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔