فیروز اب تو آؤ
تحریر: نودان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آؤ کہ وہ مہکتے پھول اب مرجھا گئے ہیں، ہواؤں نے رُخ بدل دیئے ہیں، اب کیا رہ گیا باقی تیرے بنا، اب یہ گُلستان آگ کے شعلوں میں لپٹا ہوا ہے، آجاؤکہ ماں کی دردناک چیخوں نے آسمان کو لرزا دیا ہے، یہ زندگی اب اِک نامکمل افسانہ بن کر رہ گئی ہے، آجا! میرےساتھی اسے اسکی منزل تک ساتھ مل کر لے چلیں۔ گر میں وقت کو روک سکتا، گر میں زندگی کو کچھ دیر اپنے قابو میں رکھتا۔ اب تو قدم بہ قدم کانٹے چُھبتےہیں۔ نیند بھی افسردہ ہو گئی ہے۔
یہ شہر، یہ گاؤں، یہ بستی سب تیرے انتظار میں خون کے آنسو روتے ہیں۔ دیرنہ کرو، میرے ہمنواء۔ دیر نہ کرو کہ یہ بستی اب قبرستان میں بدل جائیگی۔ سب کچھ راکھ ہو جائیگا۔
پہلے ماں صرف چیخوں و آنسوؤں سے خُود کو تسلی دیتی رہی۔ دھیرے دھیرے یہی آنسو سرخ خون کی شکل میں ٹپکنے لگے اور افسردگی کا امید اب ایک بے باک آتش فشان بن گیا۔ تیرےمسکراتے ہوئے چہرے نیند کی زینت بن گئی ہے، تو وہیں دوسری طرف تیری زندان کی چیخوں نے روح کو الوداع کرنے کے سندیسے بھیجے ہیں۔
اتنے غم اب سہے نہیں جاتے۔ ایک سال، کتنی کھٹن ہوگی تیری زندگی زندانوں میں۔ کتنے ظلم و استبداد کو برداشت کیا ہوگا۔ کیا پتہ تیرے مسکراتے چہرے پر اب غم و افسردگی کے لمحے نقش ہوئے ہیں۔ ذرا کچھ زور سے چیخو تاکہ میں سن سکوں کہ وہ دہشت کیسی ہوگی۔
بہت کرلی انتظار، ماں نے تیرے کتابوں کو جلا ڈالا۔ اُن کتابوں کو جنہوں نے تمہیں جینے کا سلیقہ سکھایا، اُن کتابوں کو جنہوں نے تمہیں سیدھے رستے پر لایا۔ اُن کتابوں کو جنہوں نے تمہیں ماں، باپ، بھائی بہن ، دوست اور سب سے بہتر قومی حقوق کی درس دی۔
اب چلے آؤ! توڑ دو زندان کی ان دیواروں کو۔ چلے آؤ میرے یارا کہ اب شال کی یخ بستہ سردی دوزخ کی آگ کی طرح جلارہی ہے۔
چلے آؤ کہ پنجگور کی گلیاں تمہارے قدموں کے لیئے ترس رہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔