عید اور جنازے
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
قیامت کیسی ہوتی ہے کوئی ان سے پوچھے
نماز عید سے پہلے جنازے جن کے گھر میں ہوں
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ یہ شعر میری نظروں سے گذرا تو پرانی یادیں تازہ ہوگئیں، جس طرح کسی کتاب کو الماری میں رکھنے کے کافی عرصے بعد خیال آجائے تو کتاب اٹھانے سے پہلے اسکی جلد پر لگی مٹی کو پھونک مار کر صاف کی جاتی ہے اور اسکے پنے پلٹے جاتے ہیں۔ ان الفاظ نے بھی کچھ اسی طرح سے میرے ذہن میں کچھ یادوں سے دہند ہٹا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ خوشی کا کوئی بھی موقع ہو، مجھے بھاتی نہیں، اندر سے دوسروں کو دکھانےکے لیئے، گھر والوں کو سکون میسر کرنے کے لیئے میں خود کو بھرپور خوش رکھنے کا دکھاوا کرتا ہوں، پر اندر ہی اندر ایک آتش فشاں جلتی رہتی ہے، پھر اسی قلم کا سہارا لے کر کلیجے کو مکمل طور پر ہی نہیں بس کچھ لمحوں کے لیئے سکون میسر کرتا ہوں۔
عید جو کہ سال میں دو دفعہ آتی ہے اور ان دونوں لمحوں میں عجیب سا اتفاق یہ ہے کہ کچھ نا کچھ ایسا ہوتا ہے، جس سے میرے دل میں لگی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ جنگ اگر غائب خدا سے ہو تو انسان خود کو بے بس لاچار تسلیم کر ہی لیتا ہے کہ وہ پہنچ سے دور ہے، کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ اگر آپکی جنگ کسی نا معلوم طاقت سے ہے اور پھر بھی آپ یہ تسلیم کر بیٹھتے ہیں کہ یہ بھی کوئی خدائی طاقت رکھتا ہے، تب آتش فشاں پھوٹنے کو آتی ہے گویا کوئی انسان مجھ جیسا مجھ پر وار کر دے اور میں اسکے سامنے بے بس و لاچار کیوں؟ کونسا منتر اسکو آتا ہے جو مجھے میسر نہیں اور وار اگر کسی بدلے کی ہو تب بھی فرق نہیں یہ کاری ضرب جو مجھے میرے خاندان سمیت دی گئی ہے، یقین جانیں یہ ضرب کسی ایسے بدلے کی تھی جو میرے خاندان، قوم، قبیلے، زمین کیلئے فائدہ مند تھی جو کہ کچھ زمینی خداوں کو ناگوار تھی۔۔۔
میں ہر عید پہ اپنے بھائیوں کی برسی کے موقع پر کچھ نہ کچھ لکھنے کی ناکام کوششں کرتا رہتا ہوں۔۔ اس شعر نے مجھے وہ وقت یاد دلایا جو مجھ سمیت میرے خاندان کو پسپا کرنے کی ناکام کوشش تھی۔ بلوچستان کی زمین پر کوئی ایسا گھر، کوئی ایسی گلی، کوئی ایسا کوچہ و شہر نہیں جہاں خون کے چہینٹے موجود نا ہوں۔ میرا گھر بھی انہی ناگناہوں کے گھروں میں سے ایک ہے، جہاں ہر دیوار پر خون کی پچکاری لگی ہوئی ہے۔
وہ دن بھی عید کا ہی تھا، جب میرے گھر سے دو جوانوں کی لاشیں اٹھائی گئیں، ہجوم کے ساتھ۔۔۔ امی بہنوں کی چیخیں آج بھی میرے سینے میں گونجتی ہوئی میرے کانوں تک پہنچتی ہیں۔ امی کے گال پر لگی وہ خون جو اسکے لخت جگر کی تھی، آج بھی یاد ہے۔ ابو کی وہ لرزش بھری آواز، الفاظ کا ٹوٹ ٹوٹ کر باہر آنا، بھولا نہیں ہوں، وہ کالا جوڑا جو لالا کے بدن پر تھا اور شیر چاہ رنگ جو چھوٹے نے پہن رکھا تھا، وہ بھی یاد ہے۔
وہ بہنوں کی چیخ جو اپنے جوان بھائیوں کی لاشوں کی طرف دیکھ کر اپنا منہ اوپر کرکے عرش تک اپنی آواز پہنچانے کی کوشش، وہ انکی بیویوں کا ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی قسمت پر زارو قطار رونا۔ وہاں موجود ایک شخص جس کا دل پھٹنے کو تھا پر سب کو حوصلہ دے رہا تھا، میں۔
جو جانتا تھا اگر خود کو ٹوٹا ثابت کر دیا تو اس ماں کا، اس باپ کا، بہنوں کا، سب کا زندہ لاش بن کے رہنا دور نہیں۔۔۔ یاد ہے مجھے وہ بھی دن جب عید کی نماز پڑھ کر سب رو رو کر گلے مل رہے تھے۔ میں، لالا اور چھوٹےکی قبروں کے درمیان بیٹھ کر انکو عید مبارک دے رہا تھا چونکہ چھوٹے کی ایک عادت تھی، مجھے ہر وقت ستانے کی تو اس دن کئی بار آوازیں دے رہا تھا میں کہ آیا ہوں مجھے ستاو اور لالا کو کہہ رہا تھا اٹھو مجھے اپنے گلے سے لگاؤ کہ چھوٹے کو کہو کہ یار بس بھی کرو۔
ان تمام باتوں کو میں بھولا نہیں، اگر یہ باتیں تم دونوں سن لو تو کہہ دوں تم دونوں کے بچے بڑے ہوگئے ہیں، اب کچھ کچھ سمجھ جاتے ہیں اور پوچھتے بھی ہیں کہ یہ لالا اور بھائی جان کون تھے؟ کہاں ہیں؟ جنکے لیئے امی روز تڑپتی ہے، تینوں کی عادتیں رنگ روپ آپ دونوں جیسا ہے۔۔۔۔ بس ایک بات کا ڈر ہے کہ کبھی سوال کرینگے کہ کس نے اور کیوں ہمارے بابا ہم سے چھینے تو جواب نفی میں دے کر میں خود کو کہاں زمیں بوس کردوںگا۔ جب بھی ایسے خیال آتے ہیں، تو سر کو پکڑ لیتا ہوں اور بس آنسوں بہا کر تکیے کو نہلا کر سوجاتا ہوں۔۔۔۔۔ اور اب بھی کچھ اسی طرح کی کیفیت ہے کہ اج عید ہے اور ہم سب نے آپ دونوں کو یاد کیا، اشک بہائے اور یقیناً آج بلوچستان کا ہر گھر اسی کیفیت سے گذر رہا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔