علامہ صاحب، فیسبکی نوجوان اور میڈیکل سائنس کی تکرار
تحریر: احمد علی کورار
دی بلوچستان پوسٹ
خارج العقلی ہے کہ وہ ہمہ وقت علامہ صاحب کی باتوں کا ٹھٹھا کرتے ہیں لیکن ایک اور طبقہ ہے جو علامہ صاحب کو مشاہیر علم ودانش گردانتا ہے۔ ان کو علامہ کی فہم و فراست سے کوئی مفر نہیں کیونکہ علامہ صاحب اپنی دانشوری سے دقیق سے دقیق مسائل کا حل ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اب یہ ان کی کوتاہ نظری ہے، کاہلی ہے کہ وہ اس پر عمل نہیں کرتے۔
علامہ صاحب گفتار کے دھنی ہیں۔ علامہ کو باتیں جھاڑتے وقت دنیا کے کسی بھی مشاہیر علم ودانش سے خوف نہیں ہوتا لیکن انہیں فیس بکی نوجوانوں کا خوف طاری ہوتا ہے کہ میری اس اہم بات کا پھر کل سوشل میڈیا پہ مذاق نہ بنایا جائے۔
وہ بعض اوقات طیش میں آکر ان نوجوانوں کو ایسے ایسے استعارات سے جوڑتے ہیں مگر نوجوانوں کا اس پر کیااثر ہونا! یہ فیسبکی نوجوانوں کہاں سدھرنے والے ہیں۔
علامہ صاحب منبرپر بیٹھے ہوئے ایسے ایسے واقعات تمام کر جاتے ہیں، عقل دنگ رہ جاتی ہے اور نیچے بیٹھے لوگوں کے تائیدی فقرے مزید سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں، بعض تو علامہ کو خراج ِعقیدت پیش کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں علامہ مزید جوش میں آجاتے ہیں۔
علامہ کے دلچسپ واقعات میں نیپال کا قصہ جس نے محو حیرت میں ڈال دیا، جس پر سوشل میڈیا پر ٹھٹھوں کا بازار سجا اس کی Justification میں مولانا نے لڈن جعفری کا واقعہ گوش گذار کیا لیکن یہ فیسبکی کہاں ماننے والے۔
علامہ کی فراست کے کیا کہنے لفظ جناح کی ویکیپیڈیا پھر پاکستان کے قیام کو بھی اسی کا موجب قرار دیتے ہیں، واہ واہ کے تائیدی فقرے علامہ کے جوش خطابت کو مزید کاٹ دار بنا دیتے ہیں۔
کبھی کبھی ہم جیسے نالائقوں کو سی ایس ایس کرنے اور مختلف کتب پڑ ھنے کے موثر طریقے بتاتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ سی ایس ایس کرنے سے بندہ ڈی سی، ڈی آئی جی بن جاتا ہے۔ دنیا جہاں کی کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
لیکن کم بخت فیسبکی نوجوان اتنی سنجیدہ بات کو بھی مضحکہ خیز بنا دیتے ہیں۔ پھر علامہ فیس بک پہ آکے فیس بک سمیت اس فیس بکی نوجوان گروہ کو کوستے ہیں یہ فیس بکی نوجوان سدھرنے والے نہیں۔
کرہ ارض پر نازل ہونی والی بلائے ناگہانی کرونا نے پورے نظام کو تلپٹ کر دیا ہے، اس کی بیخ کنی کے لیے دنیا کی سینکڑوں لیبارٹیریز میں ویکسین کی تیاری پر کام ہو رہا ہے۔ سائنسدان دن رات کرونا کش ویکسین تیار کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں۔
لیکن ایسے میں گذشتہ دنوں علامہ صاحب سکرین پہ نمودار ہوکر یہ اعلان کرتے ہیں کہ میں نے کرونا کش چیز تیار کرلی ہے اور علامہ صاحب یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ پلازمہ والی بات سب سے پہلے میں نے کی تھی، جب اینکر ان سے پوچھتا ہے کہ وہ دوائی اور اس کا طریقہ کار بتا دیں علامہ انکار کر دیتے ہیں کہ ابھی نہیں بتاوں گا اور اتنی آسانی سے نسخہ کیمیا بتاتے بھی کیسے؟ البتہ اس اینکر کو یقین دہانی کروائی کہ جب وہ ان کے ہاں آئیں گے وہ یہ نسخہ اس کو کھلا دیں گے، صرف کرونا ہی نہیں تمام بلائے ناگہانی سے بچ جاو گے۔
ان کم بخت فیسبکی نوجوانوں کی وجہ سے علامہ صاحب نسخہ نہیں بتا رہے، ہمارے ہاں کیسے کیسے گوہر موجود ہیں دنیا کے میڈیکل سائنس محو حیرت ہے، حواس باختہ ہے کہ کیا کیا جائے۔
لیکن ہمارے علامہ صاحب کی فہم و فراست دیکھئے انھوں نے کرونا کا علاج بھی دریافت کرلیا اس لیے چھپائے بیٹھے ہیں کم بخت فیس بکی نوجوان ماننے کو تیار نہیں۔
اسی پروگرام میں علامہ صاحب نے میڈیکل کا بڑا مسئلہ حل کر دیا جس پر سائنس عشروں سے سر کھپاتی رہی۔ علامہ صاحب نے بچوں میں معذوری کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ حمل سے زچگی تک خواتین شوہر کے علاوہ غیر مردوں کو نہ دیکھیں۔
علامہ صاحب نے اسے مزید Justify کرنے کے لیے ایک مثال دی
اب سائنسی خبر سنیے! ایک گورے جوڑے کے ہاں کالا لڑکا پیدا ہو گیا۔ یہ میں سائنس کی بات بتا رہا ہوں۔ تو بھئی سب کو بڑی حیرانی ہوئی کہ گورے ماں باپ کے ہاں کالا یعنی نیگرو کیسے پیدا ہوا۔ جب ریسرچ کی گئی تو پتہ یہ چلا کہ ایک کیلنڈر پہ نیگرو کی تصویر ٹنگی ہوئی تھی، اس کمرے میں جہاں ہونے والی ماں سوتی تھی۔ صبح جب وہ اٹھتی تھی تو اٹھتے ساتھ ہی وہ تصویر دیکھتی تھی، تو اس کے اثرات کی وجہ سے بچہ کالا پیدا ہوا۔
اگر اب بھی یہ فیس بکی نوجوان ٹھٹھے بازی سے باز نہ آئے تو علامہ ان کم بختوں کی وجہ سے اپنا علم چھپاتے رہیں گے، ہمیں پھر طبی معاملات میں گوروں کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ پھر یہ تو ہو گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔