شہید نورا بلوچ کا پیغام اور بلوچ تنظیمیں – امین بلوچ

514

شہید نورا بلوچ کا پیغام اور بلوچ تنظیمیں

تحریر: امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ دن پنجگور کے علاقے پروم میں بلوچ آزادی پسند تنظیم کے کمانڈر میجر نورا بلوچ، لیفٹینٹ نواز بلوچ، سنگت مومن بلوچ اور سنگت عبدالمالک بلوچ پاکستانی فورسز کے ساتھ بارہ گھنٹے طویل جھڑپ میں شہید کئے گئے۔ ان دوستوں کی شہادت، ہمت، بہادری اور سرزمین کی محبت کے لئے قربانی کا عمل لائق تحسین اور باعث فخر ہے کیونکہ وطن کی محبت میں جان کی قربانی دینے والے ہمیشہ امر ہوجاتے ہیں۔

دوران دو بدو جنگ شہید سرمچار نورا بلوچ نے اپنے قوم، خاندان، تنظیمی ساتھیوں اور تحریکی لیڈر شپ کے لئے ایک پیغام چھوڑا تھا۔

یہ پیغام نورا سمیت ان چاروں شہدا کی آواز ہے، یہ ان دوستوں کا پیغام ہے جو تحریک میں تنظیم کی اہمیت و افادیت سے واقف ہیں، جو شعور رکھتے ہیں کہ اداروں کی مضبوطی ہی تحریک کی مضبوطی کا ضامن ہے، اگر تنظیم مضبوط نہ ہوئے تو تحریک کہیں نہ کہیں ڈگمگا کر ختم نہ ہوجائیں۔

شہید نورا کے آخری پیغام میں ادا کئے تمام الفاظ نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں لیکن میں جس جملے سے زیادہ متاثر ہوا، وہ جملہ یہ ہے کہ لیڈر شپ تنظیم اور ادارے کو مضبوط کریں اور اپنے اداروں کے لئے کام کریں۔ یہ جملہ شہید کی بصیرت، بہادری ہمت اور قومی تحریک سے محبت کو ظاہر کرتا ہے۔

آج اگر ہم بلوچ مسلح تنظیموں سمیت سیاسی تنظیموں پہ ایک نظر دوڑائیں تو یہ بات عیاں ہوجائیگی کہ ہمارے ادارے ابھی تک اس درجے مضبوط و منظم نہیں ہیں کہ بلوچ انقلاب کو منطقی انجام تک پہنچا سکیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی چیز کبھی مکمل نہیں ہوتی، اس میں کہیں نہ کہیں چھوٹے یا بڑے پیمانے پہ غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ کمزوریاں بھی عیاں ہوجاتی ہے۔

دنیا کی کسی بھی تنظیم کے لئے ڈسپلن ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، ڈسپلن کے بغیر کوئی بھی تنظیم اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی کا شکار ہوسکتی ہے۔ مسلح تنظیموں کی بقاء ڈسپلن اور ممبران کی تربیت پہ ہی منحصرہے، جتنا سخت نظم و ضبط ہوگا اتنی ہی بہترین تربیت ہوگی اور نظم و ضبط جتنا سطحی ہوگا تنظیم اس سے کہیں زیادہ کمزور اور ناتواں ہوگا۔

آج بلوچ قومی تحریک میں سرگرم مسلح تنظیموں کی کارکردگی کا گراف بہتر سے بہتر ہوتا جارہا ہے لیکن اب بھی کئی جگہ کمزوریاں نظر آرہی ہے اور سب سے بڑی کمزوری ڈسپلن کا فقدان ہے جسکے بغیر کسی بھی تحریک کی کامیابی ممکن نہیں۔

تحریک میں سرگرم ہر فرد کا ایک انفرادی عمل ہوتا ہے، یہ بھی حقیقت ہے لیکن جب وہی سرگرم فرد تنظیم کا ممبر بن جاتا ہے تو اسکے لئے اولین شرط تنظیم کے نظم و ضبط کی پاسداری کرنا ہے۔

بلوچ مسلح تنظیموں کے کئی ممبران جو قومی تحریک میں پانچ پانچ، دس دس سالوں سے برسر پیکار ہیں انکے سرینڈر ہونے کا عمل کیا تنظیم کے نظم و ضبط پہ سوالیہ نشان نہیں ہے؟ کیا تنظیم کے ارکان کا سرینڈر ہونا تنظیم کے لئے نقصان دہ عمل نہیں ہے؟ اسکی وجوہات کیا ہیں؟ آیا تنظیم فوجی نظم و ضبط کو نافذ کرنے میں ناکام ہے یا تنظیم کی تربیتی پروگرامز اتنے معیاری نہیں کہ وہ نوجوان جہد کاروں کو قومی تحریک کے لئے تیار کرسکیں۔

کیا تنظیمی لیڈر شپ کے روئیوں سے تنگ آکر جہد کار سرینڈر کررہے ہیں یا تنظیم میں ذاتی پسند و ناپسندی کے عمل کا وجود ہے جس سے بدظن ہوکر ممبران تحریک سے دستبردار ہورہے ہیں؟

کئی اور سوالات بھی جنم لے رہے ہیں، جن کا حل بلوچ لیڈر شپ کی ذمہ داری ہے اور اس حل کے بغیر شہید نورا کا پیغام ہمیشہ ادھورا ہی رہے گا۔

شہید نورا اور ساتھیوں کی شہادت اور پیغام نے نہ صرف بلوچ نوجوانوں پہ بھاری ذمہ داری عائد کی ہے بلکہ تنظیمی لیڈر شپ کو ایک کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے اور اس امتحان میں کامیابی اور شہیدوں کے خواب کی تکمیل کے لئے لیڈر شپ کو حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرکے تنظیمی نظم و ضبط کو مضبوط بنانا ہوگا کیونکہ ڈسپلن کی مضبوطی اور جنگی تربیت کا معیار ہی تنظیم کی مضبوطی کا ضامن ہے۔

بلوچ نوجوان جو قومی تحریک سے سیاسی یا مسلح میدان میں جڑے ہوئے ہیں، انکی ذمہ داری ہے کہ وہ شہید کی شہادت پہ فخر کرنے کے بجائے انکے راہ عمل کا حصہ بنیں کیونکہ شہید کسی فخریہ جملے یا اعزاز کا محتاج نہیں ہوتا کیونکہ شہید کا عمل ہی اسکے کردار کی گواہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔