شہید طارق کریم بلوچ آج بھی زندہ ہے – مہران بلوچ

895

شہید طارق کریم بلوچ آج بھی زندہ ہے

تحریر: مہران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تاریخ ایسے بہت سے جہدکاروں سے بھرے پڑی ہے، جنہوں نے اپنی سماجی و قومی بقاء کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ انہی کی قربانیوں کے بدولت قوموں کو عظیم شناخت ملی ہے، جس قوم نے قربانی دینے سے گریز کیا اسکانام خودبخود دنیا سے مٹ گئی۔ بلوچستان جو ازل سے لیکر آج تک قربانی کا تقاضہ کررہی ہے، ہر دور میں اپنے نوجوانوں سے لیکر بوڑھوں تک کی قربانی مانگ چکی ہے، آج اگر 4 ہزار سالہ تاریخ کے باوجود بلوچ قوم دنیا کے نقشے پہ موجود ہے تو اسکی سب سے بڑی وجہ شہداء کی قربانی سمیت جہد کاروں کی جدوجہد ہے۔

اسی طرح اگر شہداء کا نام لیا جائے تو گن نہیں سکتے، بلوچ شہداء ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ انہی شہدا کے لسٹ میں ایک ایسا نام جو ایک استاد کے طورپر مانا جاتا ہے، جو ایک عظیم رہنما سمجھا جاتا ہے، جسکے جدوجہد کے بدولت پورے ایک علاقے میں انقلاب برپا ہوا۔ جسے شہید طارق کریم بلوچ کی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

جب اس علاقے میں انقلابی تاریخ پہ بحث ہوتی ہے، تو لینن کی جگہ طارق جان کو یاد کیا جاتا ہے، جب مظلوموں کو بیدار کرنےکی بات ہوتی ہے تو ٹراٹسکی کی جگہ طارق جان کی دی ہوئی شعور کو یاد کیا جاتا ہے، جب چے گویرا کی جنگی حکمت عملی پہ نظر دہرائی جاتی ہے تو اس بحث میں طارق جان سرفہرست رہتی ہے۔

اس لئے شہید طارق جان ایک دوست کے روپ میں جی رہا تھا، ایک استاد کے طور پہ شعور بانٹ رہا تھا، ایک رہنما کے روپ میں رہنمائی کررہا تھا۔ ایک جہدکار کی شکل میں بے پناہ جدوجہد کررہا تھا۔ ایک سرمچار کی شکل میں لڑرہا تھا۔ زیادہ تر سیاسی ،سماجی یا کوئی بھی چھوٹی بڑی بحث مباحثہ ہو تو شہید طارق جان کو اسکی بے پناہ قربانیوں کی بدولت ضرور یادکیاجاتا ہے۔

شہید طارق جان کو شہید ہوئے 9 برس بیت گئے، یعنی 11 مئی 2011 کو اس کی مسخ شدہ لاش کو پھینکا گیا لیکن اسکی قربانیاں، اسکی دی ہوئی شعور آج تک زندہ ہے۔ آج بھی نوجوانوں کا آئیڈیل وہی ہے، کچھ دلالوں کی دلالی نے بیسمہ کو طارق جان جیسے راہشون سے محروم کیا لیکن طارق جان کا نظریہ، سوچ و فکر آج بھی زندہ ہے اور تا ابد زندہ رہےگا، وہ تو شہید ہوکر بھی زندہ ہے لیکن قاتل زندہ ہو کر بھی مرچکے ہیں ، اور جس دلال کو سزا ملی ہے آج تک وہ بھی دلال کے طور پر یاد کی جاتا ہے۔

طارق جان کہتا تھا کہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے، وطن کی آجوئی کیلئے شہید ہوکر تا ابد زندہ رہیں یا خاموش ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مرجائیں ۔ اپنے کہے ہوئے بات پہ عمل کرکے اس نے اپنے لئے ہمیشہ زندہ رہنے کو چنا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔