شہید دل جان بلوچ کی نویں برسی
تحریر: نور خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا کی جتنی بھی قابض قوتیں مظلوم اقوام کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہوئے ہیں، جتنی بھی اقوام آج ایک خوشحال اور آرام دہ زندگی جی رہے ہیں، یہ ان بہادر نوجوانوں کی محنت، لگن، ہمت اور ان جیسے بہادر سپوتوں کے قربانیوں کے بدولت ہے کہ ان قوموں کو خوشحال زندگی اور آزادی ملی ہے۔
بلوچستان بھی ایک ایسے ظالم اور شیطان ریاست کے قبضے میں ہے لیکن بلوچ قوم اس غلامی کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ مادر وطن بلوچستان نے ایسے بہادر سپوتوں کو جنم دیا ہے، جب جہاں بندوق اٹھانے کی ضرورت پڑی تو بغیر کسی ڈر کے اسکے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔ جب تک بلوچوں کے خلاف مظالم و جبر ہوتی رہیں گی، بلوچوں کا ہر نوجوان انہیں منہ توڑ جواب دینے کیلئے تیار ہیں اور اس سرزمین کے دشمنوں کے خلاف جد وجہد جاری رہے گی، ایسے ہی اس سرزمین پر جان نچھاور کرنے والے ہزاروں نوجوانوں نے مادروطن کے لیئے قربانی دی ہیں۔
ان شہیدوں میں شہید دل جان بھی شامل ہیں، شہید دل جان ایک انتہائی خوش اخلاق اور سادہ مزاج انسان تھے، وہ ہمیشہ دوسروں کو خوش دیکھنا چاہتے تھے۔ شہید دل جان کا تعلق مشکے کے علاقے میہی سے تھا. میہی ایک ایسا علاقہ ہے، جہاں اس سرزمیں نے جنگی، سیاسی اور ہر طرح کے باصلاحیت بچوں کو جنم دیا اور ان لوگوں نے بلوچستان کی آزادی کے لئے کوئی کسر بھی نہیں چھوڑا، کئی لڑتے لڑتے شھید ہوگئے ہیں اور کئی ابھی تک میدان میں جنگ لڑرہے ہیں۔
شہید دل جان میہی کا پہلا شہید ہے، جو
3 مئی 2011 کو اپنے ایک ساتھی شہید جمال جان کے ہمراہ اپنے ایک کام کے لئے جارہے تھے، جب انہیں پاکستانی فوج اور ڈیتھ اسکواڈ نے سوراب گدر سے اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔
دن 10 سزا دینے کے بعد 13 مئی 2011 کو ان کی مسخ شدہ لاش کو خضدار کے علاقے فیروز آباد میں پھینکا گیا, شہید دل جان کی شہادت کو آج 9 برس بیت گئے ہیں۔
آج شیہد دل جان جسمانی طور پر ہم سے جدا ہیں لیکن وہ نظریاتی طور پر ہمیشہ زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ اور تاریخ بھی انکا نام ہمیشہ یاد رکھے گا کیونکہ شہید کبھی مرتا نہیں.
شھید دل جان نے اپنے ہمت اور حو صلہ مندانہ تربیت سے اپنے جدوجہد کو ہمیشہ برقرار رکھا. اسکی قربانیاں، اسکی دی ہوئی شعور آج تک ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔ بلوچستان کے شہیدوں کا لہو اور انکی جدوجہد ضرور ایک دن رنگ لائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔