بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے سندھ کی ترقی پسند سیاسی جماعت جئے سندھ قومی محاذ (جسقم آریسر ) پر ریاست کی جانب سے پابندی کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پر امن جمہوری تنظیموں پہ پابندی کا مقصد حق اور سچ کی آواز کو دبانا ہے۔ اس طرح کے عمل سے مظلوم اقوام کو ایک سازش کے تحت سیاسی عمل سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے فطری حقوق کے لئے جدوجہد سے اجتناب کریں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جئے سندھ متحدہ محاذ سندھی عوام کی حق خودارادیت کے لئے پر امن سیاسی جدوجہد کررہی ہے۔ ایک پر امن سیاسی تنظیم پہ پابندی بلاجواز، غیر آئینی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پندرہ مارچ دو ہزار تیرہ کو بلوچ طالب علموں کی آواز اور بلوچستان کی پرامن طلبہ تنظیم بی ایس او آزاد کو کالعدم قرار دیکر تنظیم کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کو مزید وسعت دیا گیا جس میں تنظیمی ممبران کی جبری گمشدگیوں اور ماروائے عدالت قتل کی واقعات میں تیزی لائی گئی۔ گذشتہ ایک دہائی میں درجنوں کی تعداد میں تنظیم کے ممبران کو شہید کیا گیا جس میں تنظیم کے سابقہ مرکزی جنرل سیکرٹری رضا جہانگیر، مرکزی جونیئر جوائنٹ سیکرٹری شفیع بلوچ، کمبر چاکر بلوچ، کامریڈ قیوم بلوچ اور دیگر شامل ہیں۔ جبکہ درجنوں کی تعداد میں لیڈران اور ممبران کو ماورائے عدالت گرفتار کیا گیا جن میں تنظیم کے سابقہ چئیرمین زاہد بلوچ، ذاکر مجید بلوچ، شبیر بلوچ اور دیگر شامل ہیں۔ بلوچستان اور سندھ کے پر امن جمہوری تنظیموں پہ پابندی دراصل بلوچ اور سندھی سماج میں سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دیکر مظلوم اقوام کو سیاسی جدوجہد سے دور رکھنے کی سازش ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ بین الاقوامی قوانین تمام اقوام کو پر امن سیاسی عمل کی اجازت دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنے قومی مسائل کو احتجاج اور دیگر سیاسی ذرائع سے دنیا کے سامنے اجاگر کرسکیں لیکن بلوچستان اور سندھ کے مظلوم عوام سے سیاست کے حق کو چھینا جارہا ہے۔ بلوچ اور سندھی عوام بحثیت مظلوم اقوام کے اپنے پرامن سیاسی جدوجہد کو جاری رکھیں اور تنظیموں پہ پابندیوں کے خلاف مشترکہ احتجاج کے عمل کو اپنائے اور اس مسئلے کو وسیع بنیادوں پہ اجاگر کرنے کی کوشش کریں۔