دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
بلوچ ساحل و سمندر | گوادر بندرگاہ
ماہی گیری میں طبقاتی تقسیم
بلوچستان میں ماہی گیری کی صنعت میں طبقاتی تقسیم اس طرح ہے:
-1 غیر حاضر مالک (تاجر)
یہ کراچی میں آباد ہے جو ساحلِ مکران کی مچھلی کی تجارت پہ اجارہ دار ہے۔ یہ نہ صرف مچھلی ٹریڈ کو کنٹرول کرتا ہے بلکہ کشتی اور جال جیسے ذرائع پیداوار کا مالک بھی ہے۔ لمبی کشتیوں (60-40 فٹ) میں سے 45 فیصد انہی غیر حاضر سرمایہ داروں کی ہوتی ہیں۔ یہ لوگ اپنی کشتیاں جال سمیت یا جال کے بغیر نا ہداؤں (کیپٹن) کو لیز پر دیتے ہیں۔ جب جال بھی مالک مہیا کرے تو نا ہدا اور اس کے آدمی پکڑی ہوئی مچھلی کا تیسرا حصہ لیتے ہیں اور مالک دو تہائی لے جاتا ہے۔ اگر جال ناہدا کا اپنا ہو تو پکڑی ہوئی مچھلی میں ایک تہائی مالک، ایک تہائی ناہدا، ایک تہائی جال وغیرہ کا (جو کہ نا ہدا کو ملتا ہے) اور باقی عملہ میں تقسیم ہوتا ہے۔
غیر حاضر سوداگرمچھلی کے ساتھ ساتھ علاقے میں اناج کی تجارت کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔
-2 مقامی جنٹری
یہ اورماڑہ اور گوادر کے کھوجے ہیں مگر اس طبقے میں کچھ ”مید“ بھی شامل ہیں۔ کھوجے (اسمعیلیوں کا مقامی نام ہے) بلوچ سواحل کے ساتھ ساتھ آباد ہیں۔ تاجر پیشہ ہیں اور بڑی بڑی کشتیوں کے مالک رہے ہیں۔ یہ لوگ تعداد میں تو بہت کم رہے، مگر دولت مند اور با اثر رہے۔ یہ دیگر مقامی قبائل سے خود کو الگ تھلگ رکھتے ہیں۔ مقامی طور پر یہ بہت طاقت ور طبقہ ہے اور آلاتِ پیداوار کا ایک اچھا خاصا حصہ ان کی ملکیت ہے۔ مگر انہیں یہ حیثیت غیر حاضر مالک کے ایجنٹ ہونے کی وجہ سے حاصل ہے۔ وہ یہ ایجنٹی مسلسل کرتے ہیں اور اس سے منافع کماتے ہیں۔ یہ طبقہ مندرجہ ذیل طریقے سے استحصال کرتا ہے۔
i۔ مالک کی حیثیت سے: باقی ماندہ بڑی کشتیاں اس طبقے کی ملکیت ہوتی ہیں۔ یہ لوگ مچھیروں کو بٹائی کے مندرجہ بالا فارمولا کے تحت کشتیاں لیز کرتے ہیں۔
ii۔ نائب کی حیثیت سے: وہ غیر حاضر کشتی مالکان کے مفادات کی نگرانی کرتے ہیں اور اس سے مسلسل معاوضہ لیتے رہتے ہیں۔
iii۔ کمیشن ایجنٹ کی حیثیت سے: وہ غیر حاضر تاجروں اور کراچی فریزنگ پلانٹس کے لیے خریداروں کا کام کرتے ہیں۔ پکڑی ہوئی ساری مچھلی خریدتے ہیں۔ ان کا کمیشن (جسے ’کاردی‘ کہتے ہیں) قدر کا ساڑھے بارہ فیصد ہوتا ہے۔
iv۔ تاجر اور ٹھیکیدار کی حیثیت سے: بنیادی ضرورت کی اشیا سپلائی کرنے والی مقامی دکانیں اسی طبقے کے افراد کی ہیں۔ علاوہ ازیں یہ لوگ چھوٹے ماہی گیروں کی ساری ماہی گیری کی ضرورتیں سپلائی کرتے ہیں اور حکومت سے مقامی سپلائی اور تعمیرات کے چھوٹے موٹے ٹھیکے لیتے ہیں۔
جنٹری اپنے بچے کراچی اور حیدر آباد کے تعلیمی اداروں میں بھیجتی ہے اور مقامی سیاست کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔
-3 چھوٹے ٹھیکیدار
اس طبقے میں کم قیمت والی مچھلی کے کاروباری شامل ہیں۔ ان کے پاس عموماً ایک چھوٹی کشتی (40-35 فٹ) ہوتی ہے۔ وہ اپنی کشتی جال کے بغیر لیز کرتے ہیں اور پکڑی ہوئی مچھلی کا آدھا حصہ لے جاتے ہیں۔
-4 چھوٹے مالک ماہی گیر
عام لوگ ہیں۔ مید ہیں جو کہ ماہی گیری کو خاندانی کام کی حیثیت سے سنبھالتے ہیں۔ ان میں جو لوگ معاشی طور پر بہتر ہوتے ہیں، وہ درمیانے درجے کی کشتیوں (45-40فٹ) کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ لوگ گہرے سمندر میں بھی ماہی گیری کے لیے جاتے ہیں۔ مگر یہ لوگ ایجنٹوں کے ساتھ بھی بندھے ہوتے ہیں جو انہیں مچھلی کومحفوظ کرنے کے لیے نمک مہیا کرتے ہیں۔ جس کے عوض انہیں اسی ایجنٹ کی مرضی کی قیمت پر اپنی مچھلی فروخت کرنی پڑتی ہے۔
ان کی مچھلی زیادہ تر مقامی طور پر بک جاتی ہے اور اگر شرمپ ہو تو برآمد کے لیے ایجنٹ اسے خرید لیتا ہے۔ یہ لوگ عموماً غریب ہوتے ہیں۔ ان کی آمدنی ماہی گیری کے موسم کے بعد دیر تک نہیں چلتی۔ غربت، بوریت اور فرسٹریشن کے طویل دورانیہ میں وہ جوا بازی، رنڈی بازی، بچہ بازی اور نشہ کرتے ہیں۔ انہیں قرض لینا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنا جال اور کشتی رہن رکھنا پڑتے ہیں۔ اور ماہی گیری کے موسم میں اپنی مچھلی سستی فروخت کرنی پڑتی ہے۔۔ یہی دائرہ چلتا رہتا ہے۔
-5ماہی گیر (مزدور)
بلوچستان میں کل وقتی ماہی گیروں کی تعداد اڑتیس ہزار تین سو ستتر ہے۔ جب کہ جزوقتی مزدور تیرہ ہزار پانچ سو اٹھانوے ہیں۔ اسی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کبھی کبھی کی ماہی گیری کرنے والے میدوں کی تعداد چھ ہزار ایک سو سے، یوں میدوں کی کل تعداد اٹھاون ہزار پچھتر ہے۔
ان میں وہ مزدور بھی شامل ہیں جنہیں سمندر میں ماہی پکڑنے جانا ہوتا ہے، اور وہ بھی ہیں جنہیں ساحل پر کام کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مزدوربھی اس زمرے میں شامل ہیں جنہیں دونوں کام کرنا ہوتے ہیں۔
ایک کشتی کے عملے میں ایک ناہدا (کیپٹن) ہوتا ہے اور کئی جاں شو (مزدور) ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد کشتی کی سائز کے مطابق ہوتی ہے۔
ناہدا ماہی گیری کے سارے عمل کا انچارج ہوتا ہے۔ وہ ماہی گیری کے مشن کی منصوبہ بندی کرتا ہے، اس کی نگرانی کرتا ہے اور کشتی، اوزار اور عملے کا حتمی ذمہ دارہوتا ہے۔ اگر کشتی اس کی اپنی ہو تو وہ مالک بن جاتا ہے۔ اس کے پاس لیز پر لی ہوئی کشتی بھی ہوسکتی ہے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کشتی پرائی ہو اور جال اس کا اپنا ہو۔ اس طرح اس کی حیثیت متنوع ہوتی ہے۔
عموماً ایسا ہوتا ہے کہ اس نے کشتی اور جال لیز پر لیے ہوتے ہیں اور وہ مزدوروں کو کرائے پر بھرتی کرتا ہے۔ اس طرح وہ اجارے پر کرایہ دار کاشتکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ مالک کے ساتھ پکڑی گئی مچھلی کا اسی طرح حصہ دار ہوتا ہے جس طرح کہ اجارہ دار کاشتکار لینڈ لارڈ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ناہدا پکڑی کی گئی مچھلی میں مچھیروں کے حصے کا 60 فیصد لے لیتا ہے جو ٹوٹل پکڑی گئی نصف مچھلی کا نصف یا تہائی ہوتا ہے۔
ایک کشتی پر دو یا تین جاں شو ہوتے ہیں۔ وہ جال پھینکتے ہیں اور کھینچتے ہیں، مچھلی کو نمک لگاتے ہیں، کھانا پکاتے ہیں اور کشتی کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ان کا حصہ فی کس 4 فیصد ہوتا ہے۔
اگر غور سے دیکھیں تو جاں شو کا دوہرا استحصال ہوتا ہے۔ ناہدا تو ڈائریکٹ اس کا استحصال کرتا ہے اور مالک بالواسطہ طور پر۔ جاں شو ناہدا کے بھی مقروض ہوتے ہیں، مالک کے بھی اور ایجنٹ کے بھی۔ یہ کشتی پر غلاموں کی طرح وابستہ ہوتے ہیں۔ سیزن نہیں ہوتا تو ان کی سماجی معاشی حالت پستی کی گہرائی تک گر جاتی ہے۔ نشہ، اور دیگر ساری برائیاں ان میں جڑ کر لیتی ہیں۔
جب کشتی ساحل پر آتی ہے تو ایک اور طرح کے مچھیرے یعنی فش یارڈ مزدور، کام سنبھالتے ہیں۔ وہ مچھلی اتارتے ہیں، صاف کرتے ہیں، چیرتے ہیں، نمک لگاتے ہیں، سٹور کرتے ہیں، خشک کرتے ہیں اور تول کر پیک کرتے ہیں۔ انہیں یومیہ اجرت دی جاتی ہے۔
6۔حمال (مزدور،قلی)
یہ لوگ گردن گردن پانی میں کشتی سے خوراک اور دوسری چیزیں اپنے سروں پر اٹھا کر اتارتے ہیں۔ حمال جمادار کی نگرانی میں کام کرتے ہیں اور تاجر سے بوری کے حساب سے معاوضہ لیتے ہیں۔ جمادار بڑا کمیشن رکھ کر حمال (پورٹر) کو حقیر سی رقم دے دیتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔