جنگ ہی بقا ہے – امین بلوچ

615

جنگ ہی بقا ہے

تحریر: امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اویا بیدر اپنے ناول ِگرفتار لفظوں کی رہائی میں لکھتی ہیں کہ جنگیں کبھی ختم نہیں ہونگی۔ دنیا کی موجودہ صورتحال پہ ارون دھتی رائے کا قول صادق آتا ہے کہ جنگ ہی امن ہے۔ دنیا میں جنگ ایک حقیقت ہے اور دنیا کا کوئی بھی باشعور فرد اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا میں زندہ رہنے اور ترقی کے منازل طے کرنے کے لئے جنگ ناگزیر ہے۔ جنگ میں کامیابی کے بغیر کوئی بھی قوم کامیابی کا تصور نہیں کرسکتی۔ جس قوم کو جنگ کا فن آتا ہے وہی قوم دنیا میں کامیاب ہوسکتا ہے اور جو قوم جنگ سے نبردآزما نہیں ہوسکتی رفتہ رفتہ صفحہ ہستی سے مٹ جائیگی۔

اس جنگ سے نہ فرار ہونے کی کوئی جگہ ہے اور نہ ہی جنگ سے چھٹکارہ پانا آسان عمل ہے۔ بلکہ اس جنگ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہی زندگی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر لوگ اپنے بحث و مباحث میں یہ بات بار بار دہراتے ہیں کہ بلوچ قوم ایک جنگجو قوم ہے اور بلوچ قوم کی نفسیات سیاست سے زیادہ مسلح جدوجہد پہ مرکوز ہے۔ باقی رہی جمہوریت یا پر امن سیاست بلوچستان کے عوام کی طبعیت سے میل نہیں کھاتی لیکن حقیقت پسندی سے دیکھیں تو بحث و مباحثے میں کئی گئی یہ باتیں صرف باتیں ہیں اور ان کا حقیقت سے دور تک کا واسطہ نہیں۔

بلوچ عوام نے جب بھی نو آبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کے لئے پر امن سیاست کرنے کے لئے تنظیمیں قائم کیں تو برطانوی اور پاکستانی مقتدرہ نے انہیں کالعدم قرار دیکر لیڈرشپ اور ممبران کو اپنے عتاب کا نشانہ بنایا اور پر امن سیاست کو بلوچستان کے لئے شجر ممنوعہ قرار دیا گیا۔

بلوچستان کے سیاسی میدان میں سیاسی لیڈران اور ممبران کے لئے حالات اتنے کھٹن اور دشوار بنائے گئے ہیں کہ پر امن سیاست کے ذریعے اپنے حقوق کی جدوجہد کرنا ڈراونا خواب تصور کیا جاتا ہے۔ پر امن سیاست سے منسلک سیاسی ممبران اور سیاست سے جڑے طالب علم کے لئے بلوچستان کے سیاسی میدان میں جدوجہد کرنا موت کے منہ میں جانے کے مترادف ہے۔

وہ طالب علم اور استاد کہاں جائیں جو فوجی منظر پیش کرتی ہوئی تعلیمی اداروں میں ریاستی عتاب کا شکار ہیں۔ کسان، مزدور، ڈاکٹرز، وکیل کہاں جائیں جن کے سر پہ روز موت کا سایہ ہیں۔ جو طالب علم پنجاب یا کراچی کا رخ کرتے ہیں انکے ساتھ ریاست اور اسکے ماتحت اداروں کا سلوک کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

جس ریاست کے انصاف کے ادارے خفیہ فیصلوں کو مسلط کرنے میں ماہر ہو،جہاں پروفیسرز کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کیا جاتا ہو۔جہاں اسکولوں میں قبضہ گیر کی زبان کو مقدس قرار دیا گیا ہو اور بلوچی زبان میں اظہار اور تحریر کو جرم سمجھا جاتا ہو۔ایسے حالت میں ایک بلوچ طالب علم کیا فیصلہ کریں گا۔ وہ اپنے اور قوم کی بقاء کے لئے پہاڑوں کا ہی رخ کریں گا۔وہ غلامی کی زندگی پہ موت کو ہی ترجیح دیں گا۔

شہید شاہ داد اور شہید احسان بلوچ کی شہادت کے بعد ریاستی میڈیا سمیت مختلف حلقوں میں یہ بحث و مباحثہ چھڑ گئی کہ شہداد اور احسان جیسے روشن خیال لوگوں نے بلوچ لبریشن آرمی کا رخ کیوں کیا؟ اگر ریاست انکے دکھ درد کو سمجھ جاتی تو وہ پہاڑوں کا رخ کرنے کے بجائے ہمارے درمیان رہ کر اپنے دکھ درد بیان کرتے اور ریاست انکی داد رسی کرتی۔

شہید شاہ داد، شہید احسان، میجر نورا، اور دوسرے کئی پڑھے لکھے روشن خیال طالب علم کیوں جنگ کا راستہ اختیار کررہے ہیں؟ کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ایک قبضہ گیر ریاست انکے دکھوں کا مداوا کبھی نہیں کرسکتا اور نہ ہی کرے گا اور قومی غلامی کی جنگ ریاست کے آئین اور قانون کی بالادستی کو قبول کرنے سے کامیاب نہیں ہوسکتی بلکہ اسکے لئے مرمٹنے اور کچھ کرنے کے فلسفے پہ عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔

جہاں ایک ظالم ریاست آپ کی سر زمین پہ قبضہ کرے۔ جہاں بچوں، بزرگوں، نوجوانوں اور خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر اغوا کیا جاتا ہو۔ جہاں چادر اور چار دیواری کو پامال کیا جاتا ہو۔ جہاں مائیں اپنے بچوں کے انتظار میں تڑپ تڑپ کر اس دنیا سے رخصت ہوجائیں۔ جہاں بہنیں اپنے بھائیوں کے انتظار میں سڑکوں پہ احتجاج کرتی نظر آئے وہاں انقلاب ضرور جنم لیتا ہے اور شاہ داد اور احسان جیسے نوجوان اپنے بقاء کی جنگ میں پہاڑوں پہ جانے کو ہی ترجیح دیں گے۔

شہید شاہ داد اور شہید احسان کی شعوری جدوجہد اور قربانیوں نے بلوچ نوجوانوں اور طالب علموں میں ایک نئی روح پھونک دی اور ان طالب علموں کے لئے کئی سوالات چھوڑے، جو پاکستانی اداروں کے اندر بلوچ کی خوشحالی ڈھونڈتے ہیں۔ ان طالب علموں کے لئے بھی ان دونوں نوجوانوں کی شہادت ایک سبق ہے جو اسلام آباد یا لاہور کی رنگینیوں میں کھوکر بلوچ قوم کی لاچاری اور بے بسی کو فراموش کرکے صرف اپنے ڈگری اور اپنے مستقبل کا فکر لئے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔

کتابوں کا مطالعہ ایک طالب علم کے لئے ناگزیر حیثیت رکھتا ہے لیکن مطالعے کے ساتھ ایک مقصد کا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ بغیر مقصد کے علم حاصل کرنا یا نوکری کے لئے علم حاصل کرنا محض خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

وہ طالب علم جو کراچی، اسلام آباد، لاہور یا بڑے بڑے شہروں میں حصول علم کے لئے چلے جاتے ہیں انہیں جان لینا چاہیئے کہ انکا مستقبل بلوچستان سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں ان کا کوئی مستقبل نہیں۔ جس طرح ریاست نے ساجد حسین،عارف بارکزئی، حکیم بلوچ کو شہید کیا اسی طرح ریاست کسی بھی وقت آپکو نشانہ بناسکتی ہے۔ قابض ریاست صرف طاقت اور تشدد کی زبان سمجھتی ہے۔ بلوچستان کی جنگ بلوچوں کی ضرورت اور اسی جنگ میں ہی بلوچوں کی بقاء ہے۔

ایک اور چیز جو ہم بلوچ جہدکاروں کی شہادت کے وقت ظاہر ہوتی ہے، وہ جذباتیت کا عنصر ہے۔ جب ریاست بلوچ نوجوانوں کو شہید کرتی ہے تو اکثر ایسے جذباتی نعرے نظروں کے سامنے گذرتے ہیں یا خوش فہمیوں سے بھرپور جملے سننے کو ملتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محض خوش فہمیوں اور جذباتی نعروں سے ہم یہ جنگ جیت سکتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ لفاظی اور جذباتیت کا عنصر جنگ کے لئے نقصان دہ عمل ہے۔ جنگ میں کامیابی کی اولین شرط شعور اور جنگی مہارت کا امتزاج ہے۔ جب ایک نوجوان شعوری بنیاد پر جنگ کا راستہ اختیار کرتا ہے تو وہ ہر مشکل حالات کا جوانمردی سے مقابلہ کرتا ہے اور مہارت اسے کامیابی کے راستوں کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔

شہید شاہ داد اور شہید احسان شعوری طالب علم تھے جن کا شعور اور احساس انہیں جنگ آزادی کے راستوں پہ لے آئی۔ طالب علموں کو چاہئے کہ وہ سنگتوں کی شہادت کے بعد وقتی جذباتی پن کا شکار ہونے کے بجائے خاموشی سے جنگ کا حصہ بنیں اور اپنے عمل سے ثابت کریں کہ بلوچستان کی زمین ہر دور میں شہید شاہ داد،احسان،حمید،استاد اسلم،فرید مجید،کمبر مبارک،فدا جیسے فرزندوں کو جنم دیتی رہے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔