تعلیمی اداروں کو بند کرکے حکومت بلوچستان کو پسماندہ رکھنا چاہتی ہے- نیشنل پارٹی

192

نیشنل پارٹی کے ترجمان نے کہا  موجودہ سلیکٹڈ حکومت پروفیشنل تعلیمی اداروں کو بند کرکے بلوچستان کو پسماندہ رکھنا چاہتی ہیے ، چھ سال قبل قائم کئے گئے پروفیشنل تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیز کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے ، میڈیکل کالج خضدار کی نئی عمارت پر کام روک کر وومن پولیٹیکنک ،سردار بہادر خان یونیورسٹی کیمپس اور سکندر یونیورسٹی کو ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے جس کے خلاف نیشنل پارٹی بھرپور تحریک چلاہیگی۔

 ترجمان نے کہا  ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور حکومت میں بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی بجٹ 4 فیصد سے بڑھاکر 24 فیصد کردی گئی، سبی خضدار، لورالائی، کیچ ،گوادر نصیرآباد میں چھ نئے یورنیورسٹیز ہاہیر ایجوکیشن کمیشن سے منظور کرائے ، خضدار، لورالائی اور کیچ میں نئے میڈیکل کالجز قائم کئے گئے، جن کی کلاسز بھی عارضی عمارتوں میں شروع کردی گئی ، ڈاکٹر مالک بلوچ کے بعد جب نواب ثنا اللہ زہری وزیراعلی بنے تو انہوں نے بھی اس تسلسل کو برقرار رکھا، نئے میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز کی تعمیر کا کام جاری تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر راتوں رات نئی پارٹی بناکر نواب ثنااللہ کی جمہوری حکومت ختم کرتے ہی پہلا وار ان تعلیمی اداروں پر کی گئی ۔پروجیکٹ ڈائریکٹر میڈیکل کالج کیچ جس نے کیچ جیسے پسماندہ ترین علاقے میں انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کا میڈیکل کالج بنایا محض اس لیئے معطل کیا گیا کہ سابق وزیر اعلی اور ایم پی اے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے میڈیکل کالج کیچ کا افتتاح کیوں کرایا گیا ، خضدار میڈیکل کالج کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کو ہٹا کر دو سالوں سے پوسٹ خالی رکھا گیا ہیے حالانکہ اس حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ایک مہینے کے اندر پلاننگ کمیشن کی ہدایات کے مطابق مستقل بنیادوں پر پروجیکٹ ڈائیرکٹرتعینات کیا جائے اس حوالے سے ٹیسٹ اور انٹرویوبھی کیا گیا مگر دوسال گزرنے کے باوجود بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کی دھجیاں اڑا کر تا حال پروجیکٹ ڈائریکٹر تعینات نہ کرکے توہیں عدالت کا ارتکاب کیا گیا،اسی طرح لورالائی میڈیکل کالج کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کو بھی ہٹا کر پروجیکٹ کو تعطل کا شکار بنایا گیا،تعلیمی بجٹ سے بیس فیصد کٹوتی کی گئی۔

مرکزی بیان میں اس امر پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ وزیر اعلی بلوچستان کا ایک تازہ ویڈیو وائرل ہوا ہے جس میں موصوف واضح فرماتے ہیں کہ ایک یونیورسٹی نہیں چل رہا ہے اور یونیورسٹیز اور میڈیکل کالجز بنائے جارہے ہیں یہ وہی مائنڈ سیٹ ہے جس کی بدولت بیوروکریسی کی ایک ٹیم خضدار بھیج دی گئی جس نے سفارشات دی ہیں کہ خضدار میں میڈیکل کالج اورتین سو بیڈ پر مشتمل زیر تعمیر عمارت پر کام روک دی جائے، حالانکہ اس پروجیکٹ کے پچاس کروڑ روپے بھی اس سال منظور شدہ ہیں، اس فیصلے سے خضدار کو نہ صرف تین سو بیڈ پر مشتمل جدید طرز کے ہسپتال سے محروم کیا جارہا ہے، بلکہ مستقبل میں میڈیکل کالج سے بھی محروم کیا جا رہا ہے کیونکہ پی ایم ڈی سی وومن پولیٹکنک کے بلڈنگ میں میڈیکل کالج کو کسی صورت رجسٹریشن نہیں دیگی۔

بیان میں واضح کی گئی ہے کہ ایک مائنڈ سیٹ جو روز اول سے بلوچستان کو پسماندہ دیکھنا چاہتی ہے جس میں بیوروکریسی کے چند لوگ بھی شامل ہیں جو خود کو عقل کل تصور کرتے ہیں وہ بلوچستان میں ایسے تمام پروجیکٹس کو ختم کرنے کے درپے ہیں، کارڈیک ہسپتال ، ڈینٹل میڈیکل کالج کینسر ہسپتال نصیر آباد میڈیکل کالج منظور شدہ پروجیکٹس ہیں جن کے لئے پروجیکٹ ڈائریکٹر کی تعنیاتی کے لئیے پی اینڈ ڈی نے دو سال قبل ٹیسٹ اور انٹرویو بھی کی ہے مگر اب تک ان پروجیکٹس کو کھٹائی میں ڈال کر اب ختم کرنے کے درپے ہیں، حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور زرعی کالج کوئٹہ کے پروجیکٹ سے سبق حاصل کرنی چاہیے۔

نیشنل پارٹی نے واضح کیا ہے کہ خضدار اور لورالائی میڈیکل کالجز کے اس سال مختص کردہ پچاس پچاس کروڑ روپے فوری طورپر ریلیز کرکے پی ڈیز کی تعنیاتی کرتے ہوئے پروجیکٹس پر کام شروع کی جائے، کسی بھی پروجیکٹ کو ختم کرنے کی خلل اپنے دماغ سے نکال دی جائے،بصورت دیگر نیشنل پارٹی تمام جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر بھرپور تحریک چلائئ گی۔

نیشنل پارٹی نے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ سے اپیل کی ہے کہ حکومت بلوچستان پروجیکٹ ڈائریکٹر جھالاوان میڈیکل کالج خضدار کی تعنیاتی کے حوالے سے توہین عدالت کا ارتکاب کرچکی ہیے لہذا اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، پارٹی اپنی سطح پر بھی ان پروجیکٹس کو ختم کرنے کے خلاف عدالت سے رجوع کرئےگی۔